وطن کا شہزادہ، شہزاد بلوچ ۔ امجد دھوار

673

وطن کا شہزادہ، شہزاد بلوچ

تحریر: امجد دھوار

دی بلوچستان پوسٹ

قلات میں جب رات کی گہری سیاہی ختم ہونے لگتی ہے، تب ٹمٹماتے تارے نظروں سے غائب ہونے لگتے ہیں، قلات کے بلند پہاڑوں کی یخ بستہ ہوائیں گیاوان سے گزر کر وطن کے شہزادوں کا سلام ہربوئی کی خوبصورتی تک پہنچاتی ہیں، اس خوبصورتی کو دیکھتے ہی دیکھتے سورج کی کرنیں بھی شور کی خوبصورت بالاد کو سلام کہنا شروع کر دیتی ہیں، یقیناً ایسے خوبصورت شہر میں آنکھ کھولنا بھی کسی نعمت سے کم نہیں ہو گا، جہاں میری کی بلندی کیساتھ چشمہ کے قریب شہید نواب نورز خان سمیت دیگر شہیداء ماں دھرتی کی گود میں سو رہے ہوں۔

اسی خوبصورت وادی میں 08 مئی 1999 کو کیپٹن خدا بخش دھوار کے گھر میں خوبصورت سا شہزادہ پیدا ہوا جس کا نام شہزاد احمد رکھا گیا جو پچپن ہی سے ایک ایسی گہری کتاب جیسا تھا جسے پڑھنے والا اس کے حرف حرف کو بغور مطالہ کرنے کی کوشش کرتا، شہزاد احمد جس نے ابتدائی تعلیم اور میٹرک پاک پبلک سکول قلات سے حاصل کی اور مزید تعلیم حاصل کرنے کیلئے کوئٹہ کا رخ کیا جہاں آپ نے ایف ایس سی کے بعد بی اے کی ڈگری بھی حاصل کی اور پولی ٹیکنک کالج کوئٹہ سے حال ہی میں سیول انجینئرنگ کی ڈگری مکمل کی اور آپ میڈیکل ٹیکنیشن بھی مکمل کر چکے تھے آپ کا شمار قلات کے فٹبالرز میں بھی ہوتا تھا اور آپ ڈی ایف اے قلات کے اہم پلیر بھی تھے۔

01 جون 2022 کو شہزاد گھر سے یہ کہہ کر رخصت ہوا تھا کہ میں اپنی ڈگری وصول کرنے جارہا ہوں ، گھر میں موجود ماں کے یہ وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ شہزاد کی آخری رخصتی ہے چھوٹی بہن نے کبھی یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ آج بھائی گھر سے نکلنے جارہا ہے یہ اس کی آخری دید ہو گی یقیناً شفیق اور مہربان والد سمیت گھر کے ہر فرد نے یہ کہہ کر شہزاد کو اسی امید کے ساتھ رخصت کیا ہو گا کہ اگلی ملاقات بہت جلد شہزاد سے ہو گی مگر قدرت کو یہ منظور نہیں تھا۔

ایسے ہی ایک دن اچانک موبائل کھولتے ہی وٹسپ پر یہ خبر دیکھنے کو ملی کہ 04 جون 2022 کو موسی کالونی پولی ٹیکنک کالج کے قریب سے شہزاد دھوار اپنے دیگر دو ساتھیوں عطیق بلوچ اور احمد بلوچ سمیت سیول کپڑوں میں ملبوس فورسسز کے اہلکاروں کے ہاتھوں جبری گمشدگی کا شکار ہوئے ہیں ، یہ خبر کانوں میں پڑتے ہی میں دنگ رہ گیا کے ارے خدا تو نے یہ کیا کر دیا اس خاموش انسان کا آخر کیا جرم تھا کیونکہ ایک دن باتوں باتوں میں ان کے بڑے بھائی نے شہزاد کا ذکر کرتے ہوئے مجھ سےکہنے لگا یار شہزاد بہت ہی خاموش طب کا انسان ہے مجھے لگتا ہے کہ جتنی باتیں کوئی بھی شخص اپنی زندگی میں کرتا ہے اس کے آدھے سے بھی کم باتیں شہزاد نے اپنی زندگی میں ہم سے کی ہیں، وہ ہر وقت کسی گہری سوچ میں ڈوبا سا ہوا رہتا ہے کچھ بھی اس سے پوچھ لو تو مسکرا کر ٹال دیتا ہے اس ٹاپک پر تقریبا بہت دیر تک ہم ڈسکشن کرتے رہے۔

اس دن کے بعد میں شہزاد کو اکثر بغور دیکھتا رہتا میرے بھی زہن میں یہی سوالات گردش کرتے رہتے مجھے شہزاد اک مدد گار اور دوسروں کا خیال رکھنے والا انسان لگتا تھا کالج میں بھی ہر کولیگ کی مدد کیا کرتا تھا جب بھی کوئی نیا چہرہ کالج میں دیکھنے کو ملتا تو اس کی مدد کرتا حتیٰ کہ اکثر جب بھی آپ کو پتہ ہوتا کہ علاقے کا کوئی شخض شال کے کسی ہسپتال میں زیر علاج ہے تو آپ اس کی کمک کرنے پہنچ جاتے اور ان کے ساتھ ہر ممکن تعاون کرتے اکثر آپ اپنے گھر کے قریبی سکول میں طلباء سے ملنے جاتے ان سے پڑھائی کے بارے میں دریافت کرتے اور علاقے میں کتاب دوستی کا شعور ہر جگہ دیا کرتے تھے جب بھی کسی غریب اسٹوڈنٹ کو کوئی کتاب یا فیس کی ضرورت پڑتی سب سے پہلے شہزاد ہی اس کے پاس مدد کرنے کو پہنچ جاتا۔

کیا خبر تھی کہ سب کا ہمدرد بننے والا شہزاد قوم کی قبا کیلئے دشمن کے سیاہ زندانوں میں تکلیف اور مشقت برداشت کریگا آپ دشمن کی دی ہوئی ہر تکلیف اس کے زندانوں میں برادشت کرتے رہے آخر کار شکست خوردہ دشمن خون آلود بھیڑیوں سے بندہ آپ کے نیم مردہ جسم سے اتنی خوفزدہ ہوئے کہ آپ کو نو لاپتہ افرد سمیت مارنے کا جھوٹا دعویٰ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر نے کیا تھا۔

کسی کو کیا خبر تھی کہ آپ کے اس خاموشی کے پیچھے اک اور فلسفہ ہے یہ فلسفہ مجھے تب سمجھ آیا مجھے جب قلات کے عوام نے شہزاد کے جسد خاکی کو شور کے دامن میں داخل ہوتے ہی آنسوؤں کی بجائے پھولوں سے خوش آمدید کہا میں یہ سب دیکھ کرحیران رہ گیا میں سمجھنے لگا کہ شہزاد کون تھا شہزاد کی خاموشی کی وجہ کیا تھی یہ بات ایک کھلی کتاب کی طرح میرے سامنے واضح ہونے لگی کہ شہزاد ماں دھرتی کا ایک متوالہ تھا شہزاد کی خاموشی میں وطن کا درد تھا لاپتہ اسیران کی ماؤں بہنوں کی چیخ اہ و پکار کی آوازوں نے شہزاد کو خاموش بنائے رکھا تھا۔ شہزاد تو شور کی ہواؤں کی پکار کو برسوں پہلے محسوس کر چکا تھا شہزاد تو اپنے حانی اپنے وطن کا شہہ مرید بن چکا تھا شاید قلات کے شہزادے شہزاد کو جانا ہی تھا یقینا شہزاد کی قربانی سے جو جزبہ اور ہمت قلات میں جاگ چکی ہے وہ آگے اور بھی ابھر کر نکلے گا قلات کا ہر جوان شہزاد کا رستہ انتخاب کرے گا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں