سندھ حکومت اور لاپتہ افراد کے لواحقین کے درمیان مذاکرات کا دوسرا دور

285

سندھ حکومت اور لاپتہ افراد کے لواحقین کے درمیان مذاکرات کا دوسرا دور شروع ہوگیا۔ سندھ حکومت نے لواحقین اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کو احتجاج کو وسعت دینے کے فیصلے پر نظرثانی کرنے کی درخواست کی اور کہا کہ کراچی میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے سندھ حکومت کو وقت درکار ہے اور وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کراچی میں لاپتہ ہونے والے افراد کی بازیابی کے لئے ذاتی طور پر حل کرنے میں کوشاں ہیں۔

جس پر بلوچ یکجہتی کمیٹی کی آرگنائزر آمنہ بلوچ احتجاج وسعت دینے کو سندھ حکومت کے عملی اقدامات سے منسلک کیا اور کہا کہ کراچی میں لاپتہ ہونے والے افراد کی بازیابی کو یقینی بنائی جائے۔

جمعے کے روز بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی کی آرگنائزر آمنہ بلوچ کی قیادت میں لواحیقن نے سندھ کے سینئر وزیر میر شبیر بجارانی سے ان کے دفتر سندھ سیکریٹریٹ میں ملاقات کی۔ ملاقات میں کراچی سے بلوچوں کے لاپتہ ہونے پر تبادلہ خیال کیا اور تمام لاپتہ افراد کی بازیابی پر سندھ حکومت نے اتفاق کیا۔

اس موقع پر میر شبیر بجارانی نے وفد کو بتایا کہ ان کو وزیراعلیٰ سندھ سید مرادعلی شاہ کی جانب سے یہ ہدایت ہے کہ وہ کراچی میں لاپتہ ہونے والے بلوچوں کی بازیابی پر عملی اقدامات کئے جائیں۔

انہوں نے سندھ اسمبلی کے باہر بلوچ خواتین پر پولیس کی تشدد پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ذمہ دار پولیس اہلکاروں کے خلاف تادیبی کاروائی کی جائیگی۔

اس موقع پر بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی کی آرگنائزر آمنہ بلوچ نے سندھ کے سینئر وزیر میر شبیر بجارانی کو کراچی سے لاپتہ ہونے والے تمام افراد کی فہرست دی اور انہیں جلد بازیاب کرنے کا مطالبہ کیا۔

آمنہ بلوچ نے میر شبیر بجارانی کی لاپتہ افراد کی بازیابی کی یقین دھانیوں پر اتفاق کرتے ہوئے احتجاج کچھ وقت کے لئے موخر کرنے کا فیصلہ کیا اور کہا کہ انہیں احتجاج کرنے کا شوق نہیں ہے۔ اگر مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کیا جائے وہ اس اقدام کا خیرمقدم کرینگی۔

اس موقع پر سندھ کے سینئر وزیر میر شبیر بجارانی نے آمنہ بلوچ کو یقین دھانی کرائی کہ وہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے وزیراعلیٰ سندھ کو آگاہ کرینگے اور ان کی بازیابی کو یقینی بنائی جائیگی۔

واضع رہے کہ چھ روز قبل بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی کی آرگنائزر آمنہ بلوچ نے لواحقین کے ہمراہ کراچی پریس کلب میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت نے لاپتہ افراد کو ایک ہفتے کے اندر رہا نہیں کیا گیا تو وہ احتجاج کو وسعت دینگی۔ اس اعلان کے بعد سندھ حکومت نے لاپتہ افراد کے لواحقین سے مذاکرات کا دوسرا مرحلہ شروع کرنا پڑا۔

مذاکراتی اجلاس میں آمنہ بلوچ نے کہا کہ اس وقت بے شمار افراد سی ٹی ڈی سندھ اور وفاقی اداروں کے قید میں ہیں۔ وہ بے گناہ ہیں۔ آمنہ بلوچ نے کہا کہ سندھ پولیس کی معاونت سے وفاقی ادارے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ماری پور کے علاقے دلفلاح آباد سے محمد عمران ولد محمد حنیف کو لاپتہ کردیا گیا۔ اسی طرح نوربخش ولد حبیب کو کراچی کے علاقے ریئس گوٹھ سے اٹھالیا گیا۔ لیاری کے علاقے میراں ناکہ سے شوکت بلوچ کو لاپتہ کردیا ہے۔ جبکہ عبدالحمید زہری کو کراچی کے علاقے گلستان جوہر بلاک 13 سے دس اپریل 2021 کی رات تین بجے ایک درجن کے قریب سادہ کپڑوں میں اہلکارو نے ان کے گھر سے لاپتہ کردیا گیا۔ ضلع پنجگور کے علاقے پروم سے تعلق رکھنے والا دوست محمد صالح محمد کو کراچی ایئر پورٹ سے لاپتہ کیا گیا۔ وہ عمان آرمی کے اہلکار ہیں جو چھٹیاں گزارنے اپنے آبائی علاقے آیا ہوا تھا۔ دوست محمد اور عبدالحمید زہری سمیت بعض افراد کا تعلق بلوچستان کے مختلف علاقوں سے ہیں۔ اجلاس میں لاپتہ افراد عبدالحمید زہری کی بیٹی سعیدہ حمید اور دیگر لواحقین نے شرکت کی۔