کوئٹہ: جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج جاری

52

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا کوئٹہ پریس کلب کے سامنے جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاجی کیمپ آج 5426 ویں روز جاری رہا۔

اظہار یکجہتی کرنے والوں میں مچھ بولان سے سیاسی و سماجی کارکنان نبی بخش بلوچ ، سلام بلوچ و دیگر شامل تھے۔

تنظیم کے وائس چئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا ہے کہ جبری گمشدگیوں و مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی سیاسی کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ آبادیوں پر یلغار قابض ریاست کا ہمیشہ ہی سے شیوہ رہا ہے لیکن جب بلوچ قومی تحریک مختلف نشیب و فراز سے گزرتے ہوئے تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے جس سے حواس باختہ ہوکر ریاست ظلم و جبر کی حدوں کو پار کررہی ہیں جو تا امروز جاری ہے ۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے مطابق 2000 سے لے کر 2004 تک 68000 ہزار بلوچ فرزند جبری طور پر لاپتہ کئے گئے ہیں اور حراستی قتل کے شکار ہوگئے ہیں ہزار سے زائد افراد شہید کئے جاچکے ہیں لاپتہ افراد کی عدم بازیابی اور حراستی شہادت کے خلاف لاپتہ افراد کے لواحقین نے وی بی ایم پی کے پلیٹ فارم سے گزشتہ 15 سالوں سے جہد و جہد کے تمام ذرائع بروئے کار لا رہے ہیں ، احتجاجی مظاہروں ، ریلیوں و سیمیناروں ، عدالتوں اور کمیشنوں نے عدالتی پیشیوں کے ساتھ ساتھ طویل ترین بھوک ہڑتالی کیمپ قائم ہے جس سے عالمی اداروں کی توجہ بلوچستان کی سنگین صورتحال کی جانب مبذول کرانے میں اہم کردار ادا کرتے رہی ہیں ۔ یہ طویل ترین پرامن جہد و جہد انسانی حقوق کی تنظیموں سمیت اقوام متحدہ کے کردار پر بھی کئی سوالات کھڑی کردی ہی ۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا ہے کے آج کی دنیا میں دوہری انسانی حقوق کے نعروں کے پیچھے عالمی اجاراداری ، مفادات کے تحفظ کے لیے برسرپیکار ہے جس کی وجہ سے عالمی تنظیمیں ، انسانی حقوق کا عالمی منشور اور دیگر عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کا منشور صرف کاغذوں کی حد تک محدود ہوتا جارہا ہے ۔

ماما قدیر نے کہا کے جو لوگ الگ ناموں سے پنجاب کے منڈیوں میں نسوار کے بھاؤ بیچھ کر تن فریبی کو ہی زندگی قرار دے چکے ہے ان سے اب کسی بھی قسم کا کفارہ کا امید نہیں ۔