کراچی: جبری گمشدگیوں کیخلاف احتجاج دوسرے روز جاری رہا

205

بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین کی جانب سے بھوک ہڑتالی کیمپ دوسرے روز بھی کراچی پریس کلب کے سامنے جاری رہا- کراچی سے جبری گمشدگی کے شکار افراد کے لواحقین شریک ہوئے-

بھوک ہڑتالی کیمپ لاپتہ افراد کے لواحقین اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے قائم کی گئی ہے، احتجاجی کیمپ میں لاپتہ عبدالحمید زہری کی اہلیہ اور بیٹیاں، لاپتہ سعید عمر کی والدہ، لاپتہ عمران بلوچ کی والدہ اور ڈاکٹر دین محمد کی بیٹی سمی دین سمیت دیگر لاپتہ افراد کے لواحقین شریک تھے-

لاپتہ افراد کے لواحقین نے تشدد کے شکار افراد کے عالمی دن کے موقع پر اپنا ریکارڈ کرایا مظاہرین نے اس دؤران لاپتہ افراد کے تصاویر کے ساتھ ٹیبلو بھی پیش کی، مظاہرے میں دیگر سیاسی و سماجی تنظیموں کے ارکان سمیت طلباء نے شریک ہوکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی-

یاد رہے مذکورہ افراد کو بلوچستان اور سندھ کےمختلف علاقوں سے حراست میں لیا گیا  جو تاحال لاپتہ ہیں کراچی مظاہرے میں شریک افراد نے سندھ حکومت سے لاپتہ پیاروں کی بازیابی کا مطالبہ کیا ہے-

مظاہرے میں شریک بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد افراد کی بازیابی کی جدوجہد ایک پرامن اور جمہوری تحریک ہے لاپتہ افراد کے لواحقین قانون و آئین کے دائرے میں رہ کر بلوچ لاپتہ افراد کی جبری گمشدگی کے خلاف تحریک چلارہے ہیں حکومت اور اس کے ادارے قانون کا احترام کرکے لاپتہ افراد کو عدالتوں میں پیش کریں۔

مظاہرین کا مزید کہنا تھا کہ اگر لاپتہ افراد کے خلاف کوئی ثبوت ہے تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے بلوچستان میں تشدد اور ٹارچر عروج پر ہے روزانہ کی بنیادوں پر مسخ شدہ لاشیں مل رہی ہیں۔ اور یہ سلسلہ اب پاکستان کے دیگر شہروں تک پھیل چکا ہے-

لاپتہ افراد کے لواحقین نے سندھ حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ جمہوری جدوجہد کا احترام کیا جائے اور قانون و آئین کے دائرے میں رہ کر سندھ سے لاپتہ افراد کی بازیابی کو یقینی بنائیں- وگر نا احتجاج کے سلسلے کو مزید وسیع کرکے سخت احتجاج کیا جائے گا-