مجید بریگیڈ ،شاری اور بلوچ خواتین ۔ منیر بلوچ

716

مجید بریگیڈ ،شاری اور بلوچ خواتین

تحریر: منیر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ لبریشن آرمی کو اگر موجودہ قومی تحریک کا بنیادی مسلح تنظیم قرار دیا جائے تو غلط نہ ہوگا، وقت ،حالات و بہترین جنگی حکمت عملیوں نے تنظیم کو بلوچستان کی سب سے متحرک ،فعال اور مضبوط تنظیموں میں شامل کیا ،خاص طور پرتنظیم کے سربراہ شہید جنرل استاد اسلم بلوچ ،بشیر زیب بلوچ اور دیگر سر خیل رہنماؤں کی بہترین جنگی حکمت عملی نے دشمن ریاست کی بنیادیں ہلانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

مجید بریگیڈ کی بنیاد رکھنے کی وجوہات سے ہر باشعور بلوچ واقف ہے، موجودہ تحریک آزادی کے دوسری دہائی میں مجید بریگیڈ کا پہلا فدائی حملہ شہید درویش نے ریاستی ڈیتھ اسکواڈ کے سرغنہ نصیر مینگل اور اسکے بیٹے و توتک واقعے کے ذمہ دار شفیق مینگل اور اسکے کارندوں پر کیا۔ یہ مجید بریگیڈ کے کاروائیوں کی بنیاد تھی جس نے بلوچ مزاحمتی جنگ کو ایک نیا جوش و ولولہ عطا کیا۔

جنگ آزادی کو جدید خطوط پر استوار رکھنے اور اس جنگ سے ریاست کی بنیادیں ہلانے کے لئے مجید بریگیڈ کی بنیاد وقت کی اہم ضرورت تھی جس کا سہرا بلوچ لبریشن آرمی کو جاتا ہے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ،دشمن کی عیاریوں ،چالاکیوں اور ظلم و جبر نے بلوچستان کے عوام کی زندگی اجیرن کردی اور بلوچستان کی سیاست پر قدغن لگا کر سیاسی رونقیں ماند کردی۔

سی پیک کی کامیابی کے لئے گاؤں کے گاؤں ملیا میٹ کئے گئے ،قومی تحریک آزادی سے وابسطہ تنظیموں میں دراڑ پیدا کرکے ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑا کیا گیا۔ سرینڈر پالیسی کے ذریعے نظریاتی طور پر کمزور لوگوں کو نام نہاد قومی دھارے میں لایا گیا۔

یہ وہ وقت تھا جب بلوچ لبریشن آرمی اختلافات کی زد میں تھا ،بلوچ لبریشن آرمی سے یو بی اے کا جنم اور کچھ عرصے بعد مزید دھڑے بندیوں نے تنظیم کی ساکھ کو شدید متاثر کیا۔ جب بنیادی تنظیم مشکلات اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی تو مسلح کارکنان میں مایوسی لازمی امر تھا۔ ایسے محسوس ہورہا تھا کہ قومی تحریک کمزوری اور آپسی اختلاف کی وجہ سے دم توڑ جائے گی جس کا مطلب تھا ایک قدیم قوم کے زوال کی ابتداء۔

کہتے ہیں کہ ایک لیڈر کی سب سے بڑی خوبی فیصلہ لینے کی صلاحیت ہے۔ جب کوئی قومی رہنماء فیصلہ لیتا ہے تو اسکے فیصلوں کا مرکز و محور قومی مفاد ہوتا ہے اور ایسے باکردار لیڈروں کا تاریخی فیصلہ تاریخ کو موڑ کر قوم کو اندھیروں سے نکال کر روشنیوں سے محبت کرالیتا ہے۔ یہ تاریخی فیصلہ استاد اسلم جان کا فیصلہ تھا جس نے قومی تحریک آزادی کو ایک نئے راہ پر گامزن کردیا۔

مجید بریگیڈ نے بلوچ قومی آزادی کے دن یعنی گیارہ اگست کو چائنیز قافلے کو دالنبدین میں نشانہ بنایا اسکے بعد اسی سال نومبر 2018 کو چائنیز قونصلیٹ بمقام کراچی کو نشانہ بنایا جس نے چائنا کو سوچنے پر مجبور کردیا کہ سی پیک کی کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ بلوچ لبریشن آرمی کو نیست و نابود کیا جائے لیکن چائنیز شاید ماؤ کی قربانیوں اور جدوجہد سے روگردانی کرتے ہوئے ایک قومی تحریک اور قومی تنظیم کو ختم کرنے کے لئے پاکستان کو مزید مضبوط کرنے کی کوششوں کو تقویت فراہم کرتے رہے۔ اسی کوششوں میں استاد اسلم کو اپنے کرائے کے لوگوں کے ذریعے شہید کروایا لیکن یہ قافلہ رکنے کے لئے نہیں بنا تھا بلکہ اسکی بنیاد تحریک آزادی کو مضبوط اور منظم کرنے کے لئے رکھا گیا تھا۔

مجید بریگیڈ کا قافلہ اور مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا گیا ،
آپریشن ذر پہازگ،اسٹاک ایکسنچ حملہ ،فدائی سر بلند کا گوادر میں چینی قافلے پر فدائی حملہ اور ،آپریشن گنجل نے نہ صرف پاکستان کے کھوکھلے بنیادوں کو کھوکھلا کردیا بلکہ بلوچ نوجوانوں کو یہ شعور و پیغام دیا کہ جنگ آزادی کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے قربانی کے فلسفے کو حقیقت میں بدلنا پڑتا ہے۔ یہ بلوچ لبریشن آرمی کی جنگی حکمت عملی تھی کہ جس نے پڑھے لکھے بلوچ نوجوانوں سمیت بلوچ خواتین کو بھی اس جنگ کا حصہ بنانے میں مرکزی کردار ادا کیا۔

یہ حقیقت ہے کہ بلوچ جنگ آزادی میں بلوچ خواتین کی تعداد بہت کم ہے،کچھ چنندہ خواتین ہے جنہوں نے تحریک آزادی میں اہم کردار ادا کیا ،شہید لمہ کریمہ ایک سیاسی آئیڈیل کے طور پر سامنے آئی اور بلوچ خواتین کو مزاحمتی سیاست میں متحرک کیا ،آج شہید بانک کی جدوجہد نے درجنوں خواتین کو تحریک آزادی کاحصہ بنایا۔

چھبیس اپریل بلوچ تاریخ کا وہ دن ہے جس نے ایک نئی تاریخ اور دور کو جنم دیا جو شاری کا دور کہلاتا ہے ۔ دور شاری کی بنیاد بلوچ لبریشن آرمی کے فدائی شہید شاری نے رکھی۔ جس طرح لمہ کریمہ نے خواتین کے لیے سیاسی راہ ہموار کی اسی طرح شہید شاری نے بلوچ خواتین کے لئے وہ بنیاد رکھی جس کا صرف بلوچ معاشرے میں تصور تھا۔

بی بی بانڑی اور کچھ دیگر خواتین کا بلوچ جنگ میں محدود کردار کا ذکر ملتا ہے لیکن شاری کا کردار تاریخ کے صفحوں میں ہمیشہ سرفہرست رہے گا کیونکہ یہ صرف خواتین کا بحثیت فدائی ایک آغاز نہیں تھا بلکہ بلوچ آزادی کی بنیاد رکھنے کا آغاز تھا۔

مابعد شاری بلوچ تحریک نے نہ صرف چائنہ کو نکلنے پر مجبور کیا بلکہ دنیا کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ آخر وہ کونسی وجوہات ہے کہ ایک اعلی تعلیم یافتہ خواتین فدائی کے منصب پر فائز ہوئی اور تاریخ کا دھارہ موڑ دیا۔

بلوچ خواتین جو مزاحمتی سیاست سے منسلک ہیں، جو خواتین سیاست سے کنارہ کش ہو کر عام زندگی گزار رہی ہیں یا وہ لوگ جنہوں نے بلوچستان کا کبھی ذکر نہیں کیا آج انکے لئے شاری ایک آئئڈیل کے طور پر سامنے آئی ہے۔

بلوچ جنگ آزادی ایک اٹل حقیقت ہے اس کی کامیابی کے لئے مرد اور خواتین کو یکساں کردار ادا کرنا چاہیئے۔ آج خواتین کے لئے لمہ یاسیمن ،لمہ کریمہ اور شاری مشعل راہ ہے خواتین ان کے نقش قدم پر چل کر ہی ایک پر امن آزاد بلوچستان کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں