شہید اسد حسن عرف کامریڈ بالاچ – جیئند بلوچ

484

شہید اسد حسن عرف کامریڈ بالاچ

تحریر: جیئند بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

“بالاچ نمیران اِنت ، بالاچ سلاہ بند اِنت
بالاچ مُدام کوہ ءَ ھُوکّانی شکارءَ کنت۔”
میں بذات خود ایک لکھاری اور دانشور نہیں ہوں لیکن شہید اسد جان کی جوانمردی، بہادری اور مخلصی مجھے ہر سال اس کی یاد دلاتی ہے کہ میں اس کی عمدہ کارکردگی کا ذکر کروں۔ دنیا میں کہیں پہ جو شخص اپنے قوم کی لاچاری اور مظلومی کا احساس رکھتے ہوۓ اپنے قوم کی خاطر اپنی تمام تر آسائش و خواہشات کو قربان کرکے اپنی سرزمین کی خاطر جدوجہد کرتا ہے، میرے خیال میں وہ شخص کسی کے تعارف کا محتاج نہیں کیونکہ اس کی یہ بلا لالچ و مراعات کے محنت و جدوجہد سورج کی روشنی کی طرح عیاں ہوتا ہے۔ اس کی خوبصورت اور لاجواب قربانیوں کو نہ کوئی چھپا سکتا ہے اور نہ کوئی مٹا سکتا ہے۔

شہید اسدجان انہی وطن اور قوم کے سپاہیوں میں سے ایک تھا جو ہمیشہ اپنے قوم کے غربت اور افلاس کے بارے میں سوچتے تھے کہ ایک سر سبز ، سونے اور دیگر معدنی وسائل سے بھرے سر زمین پر بسنے والے لوگ بھوک سے نڈھال ہوکر دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔

اسد جان نے اس درد کو محسوس کیا وہ ہر وقت یہ سوچتے تھے کہ وہ کونسی قوت ہے جس نے ہمارے قوم پر ظلم ڈھایا ہوا ہے۔ اس ظالم کے خلاف کونسا راستہ اپنائیں، جس سے اپنے قوم کو اس ظلم سے نجات دلائیں تو اس نے قبضہ گیر ریاست کی بد معاشیوں غیر مہذبانہ حرکتوں کو دیکھتے ہوئے، اس کے رد عمل میں اپنی جدوجہد شروع کی۔

یقیناً اس طرح کے جوانمرد جو دنیا کے تمام خواہشات سے دستبردار ہو کر حتیٰ کہ اپنے جان کی بازی لگا کر ہمیشہ کیلئے امر ہو جاتے ہیں لیکن وہ اپنے بچوں اور زندگی کے دیگر خواہشات سے زیادہ اپنے قوم و ملک کی بقاء کو زیادہ ترجیح کے بنیاد پہ رکھتا ہے کیونکہ کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ قوم کی اس بے بسی و لاچاری کے حالات کو دیکھ کر ایک نوجوان ہونے کے ناطے مجھ پر بھی قوم کی کچھ ذمہ داریاں اور امیدیں ہونگی۔

شہید اسد ہر وقت اپنے دوستوں کے ساتھ انقلابی لوگوں کے بارے میں بحث کرتا تھا اور شہید ہونے والے دوستوں کے ذاتی زندگی اور ان کے بچوں کے بارے میں بحث کرتا تھا کہ انھوں نے تمام خواہشات کو ایک عظیم مقصد قومی آزادی کی خاطر قربان کی ہے۔ ان کو پتہ تھا کہ یہ آزادی کی جنگ ہے اس میں جان کی قربانی بھی دینی پڑتی ہے لیکن ہماری قربانیاں رائیگاں نہیں ہونگے ہماری قربانیوں کے بدلے ہماری قوم کو ایک آزاد و خود مختار سر زمین ملے گا اس سر زمین پر ہماری عزت ننگ و ناموس جان و مال تمام چیزیں محفوظ رہیں گی۔

جس نے اپنے ماں کے کوکھ سے جنم لیا ہے اسے مرنا ہر حال میں ہے لیکن اسطرح نہیں جیسے ہمارے قوم کے کچھ نوجوان ریاست اور اس کے ہمنواوں کے پیدا کردہ منشیات سے مفلوج ہیں ،کچھ دیگر قبائلی اور دیگر گھناؤنی حرکتوں سے مر جاتے ہیں۔ ان لوگوں کا زندگی بے مقصد جا رہا ہے لیکن جو اپنے قوم کی بقاء کی خاطر جدوجہد کرکے قربان ہوجاتے ہیں وہ ایک عظیم رتبہ ہے جو کہ پوری دنیا میں ایک مثال اور نمایاں کردار کے نام سے جانا جاتا ہے ۔

شہید اسد جان اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا اس کے تمام بہن بھائی اس سے بہت محبت کرتے تھے اس کے ہر آواز پہ لبیک کرتے تھے اس کے تمام خواہشات ضروریات پورا کرتے تھے لیکن اس نے یہ اخذ کیا کہ واقعی میرے اپنے خواہشات ضروریات پورے ہیں لیکن قوم پر ایک ظالم اور جابر نے اپنا قبضہ جمایا ہوا ہے۔

ایک بلوچ نوجوان ہونے کے ناطے مجھے بھی اس ظلم کے خلاف کھڑا ہونا ہے اسی سوچ و نظریہ کو مد نظر رکھ کر ظالم کے خلاف جوانمردی سے مقابلہ کرکے اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے ہمیشہ کےلیے امر ہوگیا آج وہ ہم سے جسمانی طور پر جدا ہے لیکن اس کی اس خوبصورت سوچ و جذبھ سے ہمارے دل و دماغ تر و تازہ ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں