شاری زندہ ہے – زرگہوش

397

شاری زندہ ہے

تحریر: زرگہوش

دی بلوچستان پوسٹ

اپنا شعور، اپنا نظر ، پھر جاکر اپنا اپنا ردعمل یعنی اپنا کردار، کوئی تعلیم حاصل کررہا تھا، تو کوئی عشق میں مدہوش گپ شپ کررہی تھی، کوئی سجی ہوئی واپس گھر جارہی تھی لیکن کسی کو یہ گمان و خبر نہیں تھا کہ باہر گیٹ پر کھڑی ایک حسین و ماہ جبین لڑکی، وقابی و عشق وطن میں پرخمار آنکھیں لیئے، دشمن کے انتظار میں کھڑی تھی۔ اچانک ایک زور دار دھماکہ ہوا، اس وقت بھی کسی کو معلوم ہی نہیں تھا کہ دھماکہ کس چیز کا ہے اور دھماکے کے دھویں اور گرد غبار میں کس کا مقدس خون آسمان کی طرف اڑ کر ستارہ بن کر چمکتے ہوئے، شعور کی علامت میں تبدیل ہوگئی، کس عاشق وطن کی بدن کی خوشبو کی مہک گواڑخ بن کر وطن کی ہواوں میں تحیل ہوگئی-

یہ وہی خوشبو ہے جو ایک تاریخ ہے، یہ وہی خوشبو ہے جو حوصلہ ہے، یہ وہی خوشبو ہے جو بلوچ وطن کی آزادی کا نوید ہے، ویسے زندگی کو موت شکست دیتی ہے مگر شاری نے زمانے اور روایت کے برعکس اپنی زندگی سے اپنی موت کو شکست دے دی۔ ایک نئی زندگی کی ابتداء کی اپنے لیے نہیں، اپنے میرو و ماھو اور ہیبو کے لیے نہیں بلکہ ایک پورے نسل کے لیے۔

جب انسان کے اندر خود شعور و بہادری کی سطح انتہائی کمزور ہو پھر وہ لامحالہ شاری جیسی اعلیٰ سطح کی باشعور اور بہادر انسان کی پہچان کرنے اور سمجھنے میں نااہل ہوگا، پھر یہی نااہل انسان شاری جیسی عظیم انسان کی عظیم قربانی پر اپنے مخالفانہ سوچ کے ساتھ پروپگنڈہ شروع کردیتے ہیں۔ ان کی اتنا تک سمجھ نہیں ہوتا کہ ہم بے شعور و لاشعوری کی بنیاد پر دشمن کے پروپگنڈوں کو تقویت دیکربطور دشمن کے اہلکار کام کررہے ہیں، شاری کی قربانیوں کے باقی تمام پہلو اپنی جگہ شاری نے اپنے علم و شعور اور بہادری سے ایک پیغام دیا کہ بلوچ خواتین اگر فدائی حملہ کرسکتی ہیں تو خواتین مردوں کے ساتھ دشمن کے خلاف سینہ سپر ہو کر محاز گوریلا جنگ بھی لڑ سکتے ہیں۔

اب یہ سوچ ہر زی شعور خاتون کی دل و دماغ میں گردش کررہی ہے اور یہ سوچ پختگی کی طرف گامزن ہے، اسی وجہ سے آج دشمن حواس باختہ ہوکر اس سوچ کو کاونٹر کرنے کے لیے باقاعدہ منصوبے کے تحت ایک پروپگنڈہ شروع کرچکا ہے تاکہ بلوچ سماج میں بعد از شاری جو سوچ پروان چڑھ رہا ہے، اس کے اثرات زائل ہوں اس حوالے سے جو بلوچ دانستہ یا غیر دانستہ دشمن کے بیانیہ کو دوام دے رہے ہیں وہ مکمل گریز کریں تاکہ شاری کی لہو اور قربانی سے دغابازی نہ ہو۔

آج یہ ایک حقیقت ہے اور جو اس بات سے انکار کرے تو سورج کو انگلی سے چھپانے کے مترادف ہوگا کہ آج بلوچوں میں خوف کا ماحول ختم ہورہا ہے-

یہ فدائی دوستوں کی مرہون منت ہے، آج بلوچ مرد و خواتین سیاسی مزاحمت کے شکل میں سڑکوں پر بڑی تعداد میں نکل رے ہیں اور ظلم و جبر کے خلاف آواز اٹھا رے ہیں، یہ ان سورماوں کی قربانیوں کے بدولت ہے جو ایک قومی موبلائزیشن کا سبب بنے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں، جب جنگ میں شدت پیدا ہوگی تو سیاسی محاز میں بے خوفی اور بیداری پیدا ہوگی۔ مسلح محاز میں شدت خود سرفیس سیاست کے موثر و متحرک ہونے کا بہترین زریعہ ہوتا ہے۔ سیاسی مسلح جنگ ہی خود سیاسی سرفیس فرنٹ کو توانا رکھتی ہے، ماضی قریب میں جب مسلح محاز وقتی طور پر کمزور تھی اس وقت مکمل سیاسی فرنٹ جمود کا شکار تھا، ہر طرف مایوسی اور نا امیدی کی فضاء کو برتری حاصل تھی مگر آج شارل کی بے باک قربانی نے پورے بلوچ قوم میں ایک نئی سوچ کو اجاگر کر کے انہیں غلامی سے بیدار کیا اور اس جنگ کو نیا موڑ دیکر یہ ثابت کیا کہ بلوچ خواتین ، بلوچ جنگ آزادی میں اپنے مردوں،بھائیوں کے ساتھ شانہ بشانہ اس جنگ میں اپنا کردار ادا کر کے اپنے قوم کی بقاء کیلئے ہر محاز پر لڑ کر اپنے نسل کو ایک خوشحال زندگی بخش سکتے ہیں، جسکے لئے پچھلے کئی دہائیوں سے یہ مظلوم قوم لڑتی آرہی ہے-

کیونکہ آزادی کی جو تاریخ ہے وہ ہمیں چیخ چیخ کر یہی سمجھاتی ہے کہ آزادی نسلوں کی قربانی مانگتی ہے، بلوچستان کی جنگی تاریخ گواہ ہے کہ جب جب بلوچ نے پر امن طریقے سے اس مسئلہ بلوچستان کو پرامن طریقے سے حل کرنے کیلئے اور اپنے ہتھیار پھینک کر پرامن ہو کہ بات کرنے پہاڑوں سے اتر آئے تو تب تب انہیں دھوکے کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا، جسکی واضح مثال آغاعبدالکریم اور نواب نوروز خان ہیں جنکو آزادی کے معاہدے کے نام پر پہاڑوں سے نیچے اتار کر معاہدے کے نام پر دھوکہ دیا گیا ہے-


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں