ہر واقعہ ایک سبق ہے ۔ منیر بلوچ

619

ہر واقعہ ایک سبق ہے

تحریر: منیر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ قومی تاریخ کا اگر باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو کئی واقعات کو تاریخ دانوں نے اپنے قلم کے ذریعے تاریخی حقائق کے ساتھ بیان کیا ہے۔ نواب محراب خان سے لیکر نواب محمد خان زرکزئی تک، انگریزوں کے قبضے سے لے کر پاکستانی قبضے تک بلوچوں کو قبضہ گیر سے زیادہ نقصان اپنوں نے پہنچایا ہے۔

نواب مہراب خان کی شہادت میں اپنوں کی غداری شامل ہے۔ اسی طرح نواب محمد خان زرکزئی کی شہادت میں نوروز خان شامل ہے۔ آج کی موجودہ قومی تحریک کو نقصان پہنچانے میں بھی اپنوں کا کردار نمایاں ہے۔ ڈیتھ اسکواڈ کی تشکیل، نیشنل پارٹی، بلوچستان عوامی پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی کا کردار بھی عوام کے سامنے ہیں جنہوں نے انفرادی اور گروئی مفاد کے لیے اپنوں سے ایسا سلوک کیا کہ شاید تاریخ انہیں معاف نہ کریں۔

واقعات سبق ہوتے ہیں جن سے سیکھنا باشعور افراد کی خوبی ہوتی ہے اور جو ان واقعات سے سبق نہیں سیکھتے وہ تاریخ میں ہمیشہ بدترین زندگی گزارنے پر مجبور کئے جاتے ہیں۔

کبھی دوستوں سے سیکھنے کا موقعہ ملتا ہے اور کبھی دشمن کے ظلم و بربریت سے بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے۔

حال ہی میں پاکستان میں پیش آنے والا سیاسی عدم استحکام بلوچستان کی تحریک آزادی کے لئے ایک سبق ہے۔ اگر اس عدم استحکام کے دوران پیش آنے والے واقعات کا جائزہ لیا جائے تو اس میں کئی اسباق چھپے ہوئے ہیں جن سے سیاسی رہنماء اور کارکنان بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں اور مستقبل میں ریاست کی تشکیل کے بعد ایسے واقعات کے منظر عام پر آنے سے پہلے قلع قمع ہوسکتا ہے۔

تحریک انصاف حکومت کی آمد اور رخصت کیسے ہوئی۔ سیاست پر نظر رکھنے والے افراد بخوبی واقفیت رکھتے ہیں۔
نواز حکومت کا خاتمہ عمرانی حکومت کی آمد اور اب عمرانی حکومت کا خاتمہ اور اپوزیشن اتحاد کی آمد پاکستانی آئین و قانونی کی بالادستی نہیں بلکہ پاکستانی فوج کی کارستانی ہے جو اپنے مفاد کے لئے حکومتوں کو تخت پر بٹھادیتی ہے اور کبھی دھڑن تختہ کردیتی ہے۔

بی بی سی کے مطابق ہفتہ کی شب وزیر اعظم ہاوس میں فوج کی اعلیٰ عہدیداروں کی آمد، عمران خان کے ساتھ قیدیوں والا سلوک اور زبردستی حکومت کا دھڑن تختہ اس بات کی مثال ہے۔

یہ صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ ایک سبق ہے جن سے سیکھنا ایک سیاسی کارکن کے لئے بے حد ضروری ہے۔

پہلا سبق یہ ہے کہ پاکستان کے ساتھ کسی امید کی توقع نہیں رکھنی چاہیے کیونکہ کئی لوگ اب بھی اس امید میں پاکستانی پارلیمنٹ کا حصہ ہے کہ کہیں سے ان کے دل میں ہمارے لئے محبت کا جذبہ پیدا ہوجائے گا۔ وہ جو اپنے مفاد کے لئے اپنے ہی وزیر اعظم کو برداشت نہیں کرسکتے وہ بلوچ قوم کو خاک برداشت کرینگے۔

دوسرا سبق یہ ہے کہ پاکستانی حکام صرف طاقت کی زبان سمجھتے ہیں وہ انسانی زبان میں بات کرنے کے طریقے کو نہیں سمجھتے اس لیے ان سے آزادی صرف طاقت کے بل بوتے پر ہی حاصل کی جاسکتی ہے۔

سب سے اہم سبق یہ ہے کہ بلوچستان آزاد ہونے کے بعد ایک جمہوری ملک بنے گا اور تمام فیصلے سیاسی مشاورت سے ہی ہونگے۔ اس لئے بلوچ سیاسی قیادت کو سوچنا چاہیے کہ ایک ایسی بنیاد رکھیں کہ تمام قیادت ایک مرکز تلے متحد ہو کر جدوجہد کریں اور تمام طاقت سیاست سے وابسطہ افراد کے حوالے کرکے حکمت عملی تشکیل دی جائے، جنگی حکمت عملی مرتب کرتے وقت سیاسی رہنماؤں اور کارکنان کے رائے کو اہمیت دی جائے تاکہ ایک ایسا سیاسی استحکام پیدا کیا جاسکے جو سیاسی عدم استحکام اور مارشل لاء کا باعث نہ بنے۔

اگر موجودہ تحریک آزادی پر غور کیا جائے تو کئی خامیوں اور کمزوریوں کے باعث جاری و ساری ہے جو اتحاد کا تقاضا کرتا ہے۔ بلوچ سیاسی رہنماء اتحاد کے لیے باقاعدہ رابطہ مہم کا آغاز کرکے تمام پارٹیوں اور تنطیموں کو یکجا کرکے انہیں ایک کمانڈ کونسل کے تابع کریں کیونکہ اتحاد کی ہمارے کامیابی کی ضامن ہے اور بلوچستان کی تاریخ گواہ ہے کہ جب بلوچ متحد ہوئے تو انہیں سکندر اعظم جیسی طاقت شکست نہیں دے سکی جس کی اپنی تاریخ تھی اور پاکستان جیسے ملک ابھی طفلانہ دور سے گزر رہے ہیں جن کے دودھ کے دانت ابھی نہیں نکلے ہیں۔

اگر ہم نے آج بھی اتحاد و یکجہتی کے لیے جدوجہد نہیں کی اور اپنے ضد اور انا سے نہیں سیکھا تو تاریخ کے صفحات میں ہمارا نام کالی تختی پر کالی سیاہی سے لکھا جائے گا کیونکہ دنیا میں ایسا کوئی مسلہ نہیں جس کا کوئی حل نہ ہو بس نیک نیتی اور ضد کو ترک کرکے ایک قابل و قوم دوست رہنماء کی طرح مزاکرات کے میز پر بیٹھنے کی ضرورت پر زور دینا ہوگا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں