انقلابِ فرانس 1799-1789 – معراج لعل

694

انقلابِ فرانس 1799-1789

تحریر: معراج لعل

دی بلوچستان پوسٹ

تاریخ گواہ ہے کہ انقلاب ایسے دور یا زمانے میں رونماء ہوتے ہیں جب نظامِ حکمرانی غیر مستحکم صورتحال یاکہ بڑے بحرانوں کی لپیٹ میں آکر عوام الناس کی نظروں میں جامع طور پر ناکام ہوجاتے ہیں۔ ایسے مواقع پر انقلابیوں کو طویل جدوجہد کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ نظام خود اتنا بے نقاب ہوچکا ہوتا ہے کہ ایک چھوٹی سی بات بہت بڑے عوامی ردعمل کو جنم دے سکتی ہے۔ چونکہ دنیا میں ایسے بہت سے انقلاب آئے ہیں جیسا کہ انقلاب امریکہ، انقلاب چین، ہیٹی انقلاب اور انقلاب روس وغیرہ۔ لیکن ہم بات کریں گے کہ انقلاب فرانس کیسے رونماء ہوئی۔

لوئی شانزدہم جو اُس وقت فرانس پر حکمرانی کر رہا تھا۔ جنہیں یہ حکومت اور بادشاہی اپنے آبا و اجداد سے ملی تھی۔ اُن کے اندر ذرہ برابر وہ صلاحیت موجود نہیں تھے جو کہ ایک پختہ لیڈر کے اندر ہوتے ہیں۔ وہ بنام ایک شہنشاہ تھا مگر اُنہیں نہ ملکی معیشت کے بارے میں علم تھا اور نہ ہی اپنے عوام میں دلچپسی تھی وہ تو صرف اپنی ذاتی خواہشات کو پورہ کرنے کا شوقین تھا۔ چونکہ فرانس میں تین اقسام کے اسٹیٹ تھے جو درجہ ذیل ہیں؛

پادری Clergy: اُن کے پاس دولت و شہرت کے ساتھ ساتھ سیاسی طاقت بھی تھی۔

نوبل Noble: اِن لوگوں کے پاس دولت و شہرت کی البتہ کمی نہیں تھی لیکن اُن کے پاس سیاسی طاقت نہیں تھی کیونکہ اُنہیں سیاست میں کوئی دلچپسی نہیں تھا۔

بورژوازی Bourgeoisie: یہ سب مڈل کلاس کے لوگ تھے سیاسی طاقت تو دور کی بات تھی اُن کے پاس کھانے کے لئے دو وقت کی روٹی میسّر نہیں تھا وہ انتہائی غریب تھے۔

بادشاہ فرانس لوئی سب سے زیادہ ان ہی لوگوں سے وصول کرتے تھے۔ بہ نسبت دیگر اسٹیٹ ان سے زیادہ ٹیکس لیا جاتا تھا۔ وقت گزرتا گیا جب فرانس نے جنگ آزادی امریکہ میں امریکہ کی اعانت کی تو اُس میں فرانس کا اپنا خزانہ خالی ہوگیا۔ لوئی اور اس کی حکومت سرکاری خزانے کے دیوالہ پن کو دور کرنے سے پہلے قاصر تھی بلکہ جنگ آزادی امریکہ نے فرانس کی معاشی حالت اور بھی ابتر کردی۔

چنانچہ 5 مئی 1789ء کو لوئی نے اسٹیٹ جنرل کا اجلاس طلب کیا کہ نئے ٹیکسوں کے ذریعے سرکاری خزانے کو پُر کیا جائے۔ اس اجلاس میں تینوں اسٹیٹ کے لوگوں نے شرکت کی لیکن پہلے کی طرح بورژوازی لوگوں کے ساتھ نا انصافی ہوئی ۔ تو اُنہوں نے مالی مشکلات کو حل کرنے کے بجائے نظریاتی مباحث کھڑے کردیئے اور ایک نئے و ذمہ دار حکومت کے قیام کا مطالبہ کیا اور حکومت وقت کے خلاف بغاوت شروع کیا۔

24 جون 1789ء کو اپنے آپ کو مجلس دستور ساز (نیشنل اسمبلی)  قرار دے کر ملکی دستور کی تخلیق کا کام اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ اسی زمانے میں ایک سیاسی پارٹی بھی وجود میں آتی ہے جسے جیکوبن کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جس کے سارے ممبرز انقلاب کے حق میں ہوتے ہیں۔

 14 جولائی 1789ء کو لوئی شانزدہم  نیشنل کنوینشن (نیشنل اسمبلی جو بعد میں نیشنل کنوینشن میں تبدیل ہوتا ہے) کے کچھ لیڈروں کو گرفتار کرواتا ہے۔ تو لوگوں کی ایک کثیر تعداد اکٹھی ہوتی ہے اور باستیل جیل خانے کو منہدم کردیتے ہیں کیونکہ اب لوگوں کے اندر شعور آگئی تھی اپنے حق و حقوق کے لئے آواز بلند کر رہے تھے اور اس کے علاوہ اُنہیں انقلاب امریکہ نے بھی بہت متاثر کیا تھا۔ اسی لئے وہ پُرجوش ہوکر اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھاتے رہے۔ دراصل انقلاب فرانس یہاں سے آغاز ہوتی ہے۔ جب  یہ خبر دیہی طبقے کے کانوں میں پڑتی ہے اور انہیں یہ معلوم ہوتا ہے  کہ باستیل کو منہدم کیا گیا ہے تو اُن کے دلوں میں قانون کا احترام اُٹھ جاتی ہے اور وہ بغاوت کرتے ہیں۔

سیاسی لیڈروں نے عوام کو وہ مراعات دینے کا وعدہ کیا جو اس بغاوت سے پیشتر انہیں دینے سے گریزاں تھے۔ اب کیا ہوسکتا تھا پانی ان کے سروں سے گزر گیا تھا۔

سیاسی انقلاب کے ساتھ اقتصادی، سماجی اور مذہبی انقلاب بھی آگیا تھا۔ تو بادشاہ فرانس کے عزیز و اقارب نے اُنہیں ملک سے بھاگنے کا مشورہ دیا  لیکن بدقستمی سے اُن کو پیرس سے واپس پکڑ لایا گیا اور کچھ وقت نظربند کیا گیا۔ اس کے بعد نئے دستور کا نفاذ ہوا اور لوئی کو اس کے منصب پر بحال کردیا گیا۔

بورژوازیوں کے جتنے بھی مطالبات تھے وہ مانے گئے جیسا کہ ہر فرد کو بولنے کی آزادی دی جائے، جتنے بھی شہری ہیں اُنہیں یکساں سمجھا جائے اور ٹیکس اُن لوگوں سے وصول کی جائے جو صاحب استطاعت ہوں۔

اُس دور میں بورژوازیوں نے کئی نوبل لوگ گرفتار کیے اور بعد میں گیلوٹین کے ذریعے قتل کیا۔ گیلوٹین ایک مشین تھی جس میں بھاری بلیڈ عمودی طور نالیوں میں سلائیڈنگ ہوتی ہے جو لوگوں کے سر قلم کرنے کے لئے استعمال ہوتی تھی۔

درباریوں کو  ملک کے مستقل اور بادشاہ کی جان فکر لاحق ہوئی مگر کچھ نہیں ہوسکتا تھا کیونکہ وہ پھر سے غیر ممالک سے ساز باز کررہے تھے اور کچھ نہ بن سکا۔ عوام نے شاہی محل پر حملہ کیا اور بادشاہ و ملکہ کی گرفتاری کا مطالبہ کیا اور دونوں کو پھر قید کر لیا گیا۔

21 جنوری 1793ء کو بادشاہ فرانس لوئی کو سزائے موت دے دی گئی اور 16 اکتوبر 1793 کو ملکہ فرانس کو بھی عوامی عدالتی کاروائی کے بعد موت کی سزا دے دی گئی۔

اُسی سال میں ایک کمیٹی جو کمیٹی آف پبلک سیفٹی کے نام سے بنائی  گئی تھی اور مسیکملین رولبسپئر کو اُس کمیٹی کا لیڈر منتخب کیا گیا۔ کہتے ہیں کہ 1793-1794  میں رولبسپئر کی سربرائی میں تقریباً 40 ہزار سے زائد لوگوں کے سر گلوٹین کے ذریعے قلم کر دیئے گئے۔ جس کی وجہ سے اُس مدت اور زمانے کو دہشت کا راج کہا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ کچھ سالوں تک برکرار رہا  پھر 1804ء میں نیولین بوناپاٹ بر سراقتدار آیا اور فرانس کی تاریخ کو ایک نیا باب شروع کرنے کو ملا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں