طلبا سیاست اور دھڑے بندی کا شکار تنظیمیں ۔غلام رسول آزاد

450

طلبا سیاست اور دھڑے بندی کا شکار تنظیمیں

تحریر: غلام رسول آزاد

دی بلوچستان پوسٹ

پاکستان کے طلبا سیاست میں جو نمایاں حیثیت بلوچ طلبا سیاست کو حاصل ہے وہ کسی دوسرے قومیت سے تعلق رکھنے والے طلبا تنظیموں کو حاصل نہیں ہے ۔ لیکن شومئ قسمت کہ بلوچ طلبا جن کی بلوچستان اور بلوچستان کے باہر تعداد صرف چند ہزار پر مشتمل ہے پھر انہی چند ہزار میں سیاسی ذہنیت رکھنے والے کتنے ہیں اور ان سیاسی ذہنیت رکھنے والے تنظیموں کے ممبر کتنے ہونگے۔ پھر افی تنظیم کے حصے میں کتنے طلبا آتے ہیں۔ ان سب کا فیصد نکال کر ہم یہ اندازہ لگانے میں کامیاب ہوتے ہیں کہ اکثریتی طلبا سیاست سے دور ہیں ۔ درجن سے تھوڑا کم بلوچ تنظیموں کی کل ممبر شپ ٹوٹل بلوچ طلبا کی جو مختلف کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھ رہے ہیں، دس فیصد بمشکل ہوگی۔ تو دس فیصد کے لیے درجن کے قریب طلبا تنظیم کی کیا ضرورت ؟

جتنے بھی بلوچ طلبا تنظیمیں ہیں سب کے سب طلبا کے نام پر سیاست کررہے ہیں سب کے بنیادی اغراض و مقاصد سیاسی وژن ایک ہے سب کی پالیسیاں ایک جیسے ہیں۔ لیکن پھر بھی دھڑے بندیوں کے شکار ہیں۔ کوئی دوسرے بلوچ تنظیم کو اس بات پر راضی نہیں کرسکتا کہ وہ ایک کیوں نہیں ہوتے ہیں۔

بی ایس او کے کئی دھڑے ہیں ۔سب کا نام ایک کام ایک مونو گرام اور جھنڈا ایک لیکن الگ الگ دھڑا سمجھ سے بالاتر ہے ۔ اس کے علاوہ بساک جو بی ایس او کے بعد ایک اور علمی درسگاہ ہے اس کے بھی دو دھڑے ہیں کام ایک نام ایک لیکن الگ الگ پہچان سمجھ سے بالاتر ہے۔

اس کے علاوہ کئی کونسلز اور سب کا نام کام ایک پھر بھی الگ الگ ۔۔ آخر یہ کیا ماجرہ ہے ۔

گذشتہ سال سے لیکر اب تک بلوچ طلبا تنظیموں کے چار مرکزی سیشن ہوئے ہیں ۔سب کی باتیں ایک سب کا مرکز تقریبا ایک جیسا، لیکن سیشن الگ الگ اور الگ شناخت ۔۔۔

جس سے طلبا کے اندر شدید بے چینی اور مایوسی پائی جاتی ہے۔
میں بحثیت بلوچ تمام بلوچ طلبا تنظیموں کے قائدین سے عرض کرتا ہوں کہ اگر وہ بلوچ طلبا کے ساتھ مخلص ہیں تو سب کو ایک ہونا ہوگا ۔ اگر ایک نہیں ہوں گے ایک سال کے اندر چار چار سیشن ہوں گے چار چار کابینہ بنیں گی، اس کا مطلب ہے کوئی بلوچ طلبا کے ساتھ مخلص نہیں ہے۔

اسی طرح طلباء مایوس ہوکر طلبا سیاست سے دوری اختیار کرکے غلط راہوں کو اپنی منزل سمجھ کر اِدھر اُدھر بھٹکتے ہیں اور بدگمانی کا شکار ہو جاتے ہیں اور قومی کاز و فکر کو پس پشت کردیتے ہیں اور آنے والے کل کے لیے قوم کے سامنے ایک ساہ داغ بن کر رہ جاتے ہیں۔

لہذا سب تنظیموں کو بلوچ کے قومی مفاد کو دیکھ کر متحد اور مشترکہ جدوجہد کرنا ہوگا۔ آج کے حالات تمام بلوچوں سے یہ تقاضا کررہے ہیں کہ وہ اپنی چھوٹی چھوٹی اختلافات کو بھلا کر ایک ہوجائیں۔ اورایک پلیٹ فارم پر اپنا کردار ادا کریں۔

کامریڈ فدا شہید کے فلسفہ اتحاد جدوجہد آخری فتح تک کے فلسفہ کو حقیقی رنگ دے کر اس فلسفہ کو حقیقت میں بدل دیں ۔ منزل صرف اور صرف اتفاق اور اتحاد سے ہی ممکن ہوگی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں