2021 کے ہر صبح کی ابتداء اور اختتام ریاستی مظالم سے ہوتا رہا۔ ماما قدیر بلوچ

264

سندھ کے دارالحکومت کراچی میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 4544 دن ہوگئے۔ مند کیچ سے سول سوسائٹی کے سلیمان بلوچ، نسیم بلوچ، عبیداللہ نے کیمپ آکر لواحقیں سے اظہاریکجہتی کی۔ جبکہ جبری لاپتہ عبدالحمید زہری کے لواحقین بھی کیمپ میں اس وقت کیمپ میں موجود تھے۔

لاپتہ عبدالحمید زہری کے عدم بازیابی کیخلاف آج کراچی پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا جائے گا جبکہ سماجی رابطوں کی سائٹ پر آگاہی مہم چلائی جارہی ہے۔

وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر بلوچ نے وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ 2021 کے سال میں مقبوضہ بلوچستان ریاستی عتاب کا شکار رہا، ویسے تو ایسا دن نہیں تھا جب کوئی ایک منحوس خبر نہ سنی گئی ہو کہ آج ریاست نے اپنے ہاتھ کو بلوچ کے خون سے رنگنے سے روک لیا ہے، پورے سال میں اگر کسی جگہ کسی بلوچ فرزندکو اغوء کیا گیا تو کسی دوسرے جگہ مسخ شدہ لاش ملنے کی خبر گردش کرتی رہی۔

انہوں نے کہا کہ ہر صبح أٹھتے ہی دن کی ابتداء اور اختتام ریاستی مظالم سے ہوتا رہا۔ ریاست نے نئی حکمت عمل لاتے ہوئے اس سال ایک طرف تو بلوچ خوتین کو اغواء کرنا شروع کردیا تودوسری طرف تمام لاشوں کو دانستہ طور پر پشتون علاقوں میں پھینکنا شروع کیا گیا جہاں مختلف دنوں میں ان علاقوں سے کئی لاشیں ملی ہیں جں کا مقصد ان لاشوں کے ملنے کے بعد بلوچ آبادی میں عوامی ردعمل کو کم کرنا تھا اور یہ تاثر بھی دینا تھاکہ یہ لاشیں بلوچوں کی بجائے پشتونوں یا کسی اور کی ہیں۔

ماما قدیر نے کہا کہ پاکستان حکمران پرامن جدوجہد کوکاونٹر کرنے کیلئے اپنی کاروایئوں میں انتہائی تیزی لاچکی ہے۔ پورے بلوچستان میں پاکستان آرمی نے ہیلی کاپٹروں کی مدد سے سرچ آپریشن شروع کیا جن میں ایف سی، فوج اور سی ٹی ڈی نے چادر و چار دیواری کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے بلوچ خواتین کو اغواء کیا گیا، ریاستی لشکر نے پورے علاقوں میں گھروں میں لوٹ مار اور گھروں کو جلاتے رہے، جبکہ کمسن بچوں کے جبری گمشدگی کے واقعات بھی سامنے آئے مزید برآں سی ٹی ڈی کے جعلی مقابلوں میں تیس سے زائد افراد کو شہید کیا گیا جن میں اکثریت لاپتہ افراد تھی۔