یہ تتلیاں ہیں انہیں رقص کرنے دو ۔ محمد خان داؤد

638

یہ تتلیاں ہیں انہیں رقص کرنے دو

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

ہم کون ہیں جو یہ فیصلہ کریں کہ یہ حوا ہیں یا مریم؟
ہم ایسا کیوں نہیں سوچتے کہ یہ آپ ہی موضوع،آپ ہی معروض،آپ ہی کوزہ،آپ ہی گلِ کوزہ،
خود ہی کوزہ گر ہیں ہم انہیں حوا،مریم اور غیرت کے خول میں کیوں بند کرنا چاہتے ہیں؟
ہم نے روائیتوں کے طوق ان کے گلے سے کیوں لٹکائے رکھیں ہیں
ہم انہیں حوا،اور مریم سے آگے کب دیکھیں گے؟
ہم انہیں سانس لینے کب دیں گے؟
یہ حُرمت،عزت اور غیرت بن کر کیوں رہ گئی ہیں
یہ کیوں دستارِ فضلیت ہیں؟
یہ وہ سر کیوں نہیں جن سروں پر عزت تقریم کے ساتھ دستارِ فضیلت رکھی جا تی ہے!
منھ کے بلوں کے سانپ اور بندوق کی نال ان کی طرف کیوں ہو تی ہے؟
وہ حوا ہیں،مریم ہیں پر کیا وہ انسان بھی ہیں؟
پورا نہ صحیح!
آدھا ہی صحیح
وہ آدھی گواہی تو ہیں پر آدھا انسان نہیں
جب کہ ہماری جنگ انہیں پورا انسان بنانے کے لیے ہے

پورا انسان پو رے وجود کے ساتھ،پو رے دل کے ساتھ،پورے سانسوں کے ساتھ،دو آنکھوں کے ساتھ،کالے کجرے نینوں کے ساتھ،آنسو بھرے نینوں کے ساتھ پوری چال ڈھال کے ساتھ،بولتی زباں کے ساتھ،سنتے کانوں کے ساتھ اُٹھتے ہاتھوں کے ساتھ،چلتے پیروں کے ساتھ سوچتے دل اور سوال کرتی زباں کے ساتھ،رقص کرتے پیروں کے ساتھ شیریں کلام کرتے لبوں کے ساتھ منتظر آنکھوں اور دیدِ راہ بچھاتی آنکھوں کے ساتھ،گیت گاتی زباں کے ساتھ، شعروں پر سر دھنتے وجودوں کے ساتھ سسئی کے دردیلے پیر زخمی پیر بھی ہمارے ہیں پر نئی راہوں کو تلاشتے من موہنی چال کے پیروں کے ساتھ،ہاتھوں میں تھامے درد،مٹتی پرانی تصویریں اور ان لکھے ان چٹے بینر بھی ہمارے ہیں پر ان ان ہاتھوں میں تھامے بلوچی شال کے ساتھ جو رقص کرتے سوالیہ نشان؟ نہ بنیں پر اس کی تاروں سے ایسی موسیقی ابھرے جو کانوں اور جودوں کو ایک نئے سحر سے بھر دے
اداس نین بھی ہمارے ہیں،بھیگی آنکھیں بھی ہماری ہیں پر ہم ان آنکھوں کو کیوں جھڑکیں
جن میں نئی سحر ہے،نئی راگنی ہے،نئی اُمید ہے،نئی چمک ہے!
ہم ان کے رونے پہ خوش ہو تے ہیں
کیوں کہ ہم غیرت مند ہیں
ہمارے پاس دلاسے نہیں پر غیرت ہے
اور غیرت میں ہم وہ کچھ کر جا تے ہیں جو ہم ویسے نہیں کر پا تے
ہم انہیں حوا اور مریم بنانے،حوا اور مریم دیکھنے پر تو تُلے ہوئے ہیں
پر ہم یہ کبھی ہیں چاہتے
کہ وہ جئیں
دل سے
روح سے
اور جب ہوا انہیں چھو کر گزرے تو دور کہیں ان سے یہ پیغام ملے کہ
”میں اکثر ہواؤں کے بے تاب جھونکوں میں تھی
کہ تسکین جاں کے لیے
قربِ محبوب کے لمس سے آشنا ہو سکوں!“
اور ہم ہیں کہ انہیں جینے نہیں دیتے
جینا کیا
ہم تو انہیں خوابوں میں رُلنے نہیں دیتے
سپنوں میں چلنے نہیں دیتے
ہم انہیں سُروں اور سازو ں سے دور کردیتے ہی
ہم انہیں زندہ درگور کر دیتے ہیں
ہم انہیں زندگی سے دور کر دیتے ہیں
یہ بس غیرت نہیں یہ یہ ایک احساس بھی ہیں،یہ بس ایک شرم نہیں یہ ایک زندگی بھی ہیں،یہ بس حیا نہیں یہ ایک انسان بھی ہیں یہ بس حوا اور مریم نہیں کہ خدا کی جنت سے بے دخل کی جائیں اور یسوع کی صلیب کے پیچھے ہجوم کے ساتھ چلتی رہیں،یہ بس روائیتوں کی نظر ہونے نہیں آئیں یہ زندہ در گور ہونے کے لیے نہیں آئیں ہاں یہ عیسیٰ کی بہنیں ہیں پر یہ مصلوب ہونے نہیں آئیں
یہ آپ پیغام ہیں
یہ آپ یسوع ہیں
ہر بارصلیب ان کے حصے میں ہی کیوں؟
اب انہیں اپنی روائیتوں کی بھینٹ مت چڑھا ؤ!
انہیں اپنی روائیتوں کی خاطر زندہ دفن مت کرو
یہ خدا کی عظیم تخلیق ہیں
یہ گیت ہیں
یہ خدا کی عظیم دھن ہیں
جسے نئے سرے سے گایا جائے گا اور کائیانات انہیں سن کر محسور ہو جائیگی!
یہ کیسی روائیت ہے کہ سب درد ان کے حصے کے،درد ان کے پلوں سے بندھے ہوئے ہیں،پیر ان کے زخمی،دھول آلود،بے منزل سفروں کو یہ جھیلیں،آنکھیں ان کی اشک بار رہیں،پریس کلب کے دروں سے لیکر شہروں کی اداس سڑکوں پر یہ رُلیں،اداس کیمپوں میں یہ بیٹھیں،در بدر یہ رہیں!
پر جب سازوں کی باتیں ہو
رقص کی باتیں ہوں
زندگی کی باتیں ہوں
تو انہیں دھتکاردیا جائے!!
انہیں ہم حوا اور مریم تو بنا لیں
انہیں خدا کی جنت سے بے دخل بھی کر دیں
انہیں عیسیٰ کی صلیب پر آنسو بہانے کے لیے چھوڑ دیں
پر جب قدرت انہیں رقص پر محو رکرے
جب یہ خود ہی گیت بن جائیں
نغمہ بن جائیں اور بجیں اور کائینات کو محسور کر دیں تو ہم غیرت سے بھر جائیں
ہاں یہ نوحہ ہیں
پر یہ شوپین کا عظیم نغمہ بھی تو ہیں
یہ عظیم شاعری بھی ہیں
یہ کائینات کا رقص بھی تو ہیں
یہ روشنی بھی تو ہیں
یہ رس بھی تو ہیں
یہ گل بھی تو ہیں
یہ گلوں پر آنے والی تتلیاں بھی تو ہیں
غیرت کی دکانیں بند کرو
انہیں رقص کرنے دو
رقص زندگی ہے
رقص محبت ہے
رقص ہی خدائی ہے
رقص اول
رقص آخر
رقص زندہ باد!


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں