پہلوان مزار ۔ قادر بخش بلوچ

496

پہلوان مزار

تحریر: قادر بخش بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ستر کے عشرے میں اہل کیچ کے دلوں پر راج کرنے والا خوش الحان پہلوان جن کی مسرور کن آواز کی یادیں اب بھی ان لوگوں کے دلوں میں جوان ہیں جو ستر کے عشرے میں شباب کی دہلیز پر قدم رکھ رہے تھے ، جن کی پرسوز زہیرونک جن کو وہ خود زہیریگ کہتے تھے عام تھے۔ اہل کیچ ان کو مزو کے نام سے جانتی تھی۔

مزو اپنی کرشماتی اور سحر انگیز آواز سے افسردہ دلوں کو نئی توانائی بخشتا تھا، ستر کی دہائی میں کیچ میں شاید ہی ایسا کوئی ہو جو مزو کے پر سوز الحانوں سے بچا ہو، مزو کی محفلیں ہمیشہ شادیوں کے ایام. میں سجتی تھیں، وہ غضب کے پہلوان تھے۔ ان کی دیوان ہمیشہ. عشاء کی نماز کے بعد سجتی تھیں اور یہ چار حصوں پر مشتمل ہوتی تھیں، اول. پاس، دوسری، تیسری اور چہارمی پاس۔ دوسری اور تیسری پاس رزمیہ اور چارمی پاس عشقیہ داستانوں کی ہوتی تھی جبکہ اول. پاس میں صرف ہلکی اچھل کود ہوتی تھی۔ اس میں صرف پہلوان. کے رقاص حاضرین کو متوجہ. کرتے تھے اور مزو کی بھی یہی خواہش ہوتی تھی اس حصے میں زیادہ تر پھولوں کی بوندا باندی رقاصوں اور سروزی پر ہوتی تھی اور کبھی. کبھی دمبورہ بھی گلدستوں کی زد میں آتا تھا جو جان بوجھ کر خود کو بے بہر نہیں کرتا تھا، یاد رہے کہ دمبورگ مزو خود بجاتا تھا وہ بلا کے سازگر تھے۔

اول. پاس میں سروزی قصداً سروز کو اوپر نیچے کرتے تاکہ حاضرین مجلس سے بلوچی مشہور گلدستے سمیٹ سکیں، یقین جانیں یہ تامدار ہوا کرتے تھے جو منوں کے حساب سے گل. پاشی سروزی اور رقاصوں پہ ہوتی تھی بے زوق آدم زاد انہیں دشنام کہتے تھے سلسلہ چلتا رہتا کہ اچانک مزو سیاسی چاہ طلب کرتا تو لوگ فورا نگاہیں آسمان کی طرف کرتے ستاروں کو دیکھتے تو معلوم ہوتا کہ رات دھیرے دھیرے اپنی سفر کی طرف رواں دواں ہے تو یہ دوسری پاس کی ابتدا ہوتی تھی۔

دوسرا پاس مذہبی داستانوں پر مشتمل ہوتی تھی اس میں بیشتر سلتان جم جم اور بی بی زیتون کے اشعار کی فرمائش ہوتی تھی، جنہیں لوگ بڑی عقیدت اور احترام کے ساتھ سنتے تھے اور اس حصے میں کسی بھی قسم کی کوئی گل پاشی نہیں ہوتی تھی اور جب تارے سرکنے لگتے اور رات تیسرے پاس میں داخل ہورہی ہوتی تو پہلوان سروزی کو ایک مخصوص انداز میں اشارہ کرتا کہ سروز کی لے بدل دو یہ تیسرا پاس ہوتاتھا۔

یہ حصہ رزمیہ داستانوں کی ہوتی تھی جو اکثر چاکر و گھرام، سمی دودا اور بالاچ کے کولاں چہ گرمیں تاپگاں پنڈان پر مشتمل ہوتی تھی۔ اس حصے میں دلچسپ بات یہ ہوتی تھی کہ دیوان دو حصوں میں بٹی ہوتی ایک حصہ چاکر کا شیدائی ہوتا تھا اور دوسرا حصہ گھرام پر فدا ہوتا تھا مزے کی بات یہ ہوتی کہ دونوں کے چاہنے والے نہ رند تھے نہ لاشار اس حصے میں مون سون کی بارشوں کی گل پاشیاں ہوتی تھیں۔

کیا دن تھے کیسی مجلسیں تھیں، جاری و ساری دیوان اچانک محسوس کرنے لگتا کہ سروز کی لے بیٹھ رہی ہے تو یہی چہارمی اور آخری پاس ہوتی تھی اور اصل معرکہ بھی یہی ہوتا تھا پہلوان کچھ سستانے کے بعد سروزی کو کہتا کہ جتنا سروز کے تاروں کو کھینچ سکتے ہو اوپر کھینچ لو پھر مزو ایک سیاہ پیتا سروزی سروز کو ابو کرنے کی کوشش کرتا پھر پہلوان آسمان. کے ساتھ ساتھ دیوان پر بھی نگاہیں ڈالتا اس کا مطلب یہ ہوتا کہ اب آخری پاس شروع ہورہا ہے تو فورا دیوان سے آواز آتی شاہ داد منی ناکو زتک یلیں اور اس کے ساتھ ہی ایک حسین ٹوکری کی سارے پھول سروزی پر نچھاور ہوتی تھیں۔

سروزی کو خبردار کرتے کہ مھنو ہے یعنی مہناز پھر فورا مزو دھیرے سے سروزی کو کہتا اومنی. جانان۔ او منی جانان اشرف درا کے مغموم زہیرونکوں کا مخصوص انداز تھا جو ہر پہلوان کے بس کی بات نہ تھی۔

یہ چہارمی اور آخری پاس بڑا دردناک ہوتا تھا، مھناز کے دکھوں بھری داستان مزو ایسے گاتا کہ دیوان مھنو کو اپنے گھر کا فرد سمجھتا اور شاہ داد کو بڑا سفاک اور جابر مرد گردانتا دیوان کی ساری ہمدردیاں مھناز کے ساتھ ہوتی تھیں پھر ھانو اور شے مرید کے. مکہ ءِ در بند ءِ کپوت پریاتاں مکن اور ھانی. کے اس درد بھری داستان کو مزو ہمیشہ پہلوان رمی کے انداز میں گاتا تھا۔ یہ آخری پاس زیادہ سے زیادہ تیس سے چالیس شعروں کا ہوتا تھا اور آخری پاس کے اشعار میں مزو کا درد ناک الہان ھانو اور مھنو کی بے بسی کو جب مزو زھیرونک میں ڑالتا تو کئی لوگوں کے دیدوں میں آنسو چھلکنے لگتے اور کئی لوگ اپنی. آنکھوں کو اپنے چادروں سے ڈھانک لیتے۔ یہ وہی مزو ہے جن کو نوجوان نسل مزار ابراھیم کے نام سے جانتا ہے اور مزو سے پہلے کیچ میں اشرف درا، رمی، سالمی، عمر پادی و فیضک اور ان سب کے بعد پہلوانوں کا بے تاج بادشاہ تھا۔

ہرچند کہ اشرف درا محفلیں نہیں سجاتا تھا لیکن زھیرونک کا جد امجد تھا۔ یوں کیچی پہلوانوں کا آخری پہلوان مزو 17 فروری 2020 کو صبح 11 بجے کلانچ نلینٹ میں سپردخاک کردیا گیا اور یوں مکران میں پہلوانوں کا آخری روشن باب بھی ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں