سی پیک سے متعلق تحفظات، بوستان میں کام رکوا دیا گیا

522

جرمن نشریاتی ادارے ڈی ڈبلیو کے مطابق بلوچستان کے علاقے بوستان میں حکومت سی پیک سے متعلق قبائل کے تحفظات دور نہ کر سکی۔ مشتعل پشتون قبائل نے پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے اہم حصے سے منسلک بوستان اور ملحقہ علاقوں میں مغربی روٹ پر کام احتجاجاﹰ رکوا دیا۔

قبائلی عمائدین کا کہنا ہے کہ چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) نامی منصوبے کی آڑ میں ترقی کے بجائے حکومت ان کی زمینوں کو اونے پونے داموں خرید کر انہیں مزید معاشی بدحالی سے دوچار کر رہی ہے۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق سی پیک کا مغربی روٹ 293 کلومیٹر سے زائد طویل علاقے پر محیط ہے۔ اس منصوبے کے حوالے سے بلوچ اور پشتون قوم پسند سیاسی جماعتوں نے بھی کئی تحفظات ظاہر کیے ہیں۔

اس مغربی روٹ میں مجموعی طور پر 441 کلومیٹر پر پھیلے ہوئے بلوچ اکثریتی علاقے خضدار سے چمن تک کی وہ سڑک بھی شامل ہے، جسے اب دو لین سے چار لین ہائے وے میں بدلا جا رہا ہے-

بوستان میں مغربی روٹ کا ایک بڑا حصہ جس زمین سے گزر رہا ہے،اسکا مالک کہتے ہیں کہ ترقیاتی عمل کے حوالے سے پشتون قبائل کے تحفظات دور نہ کیے گئے، تو تمام تر صورتحال کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہو گی۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بوستان اور ملحقہ علاقے سی پیک منصوبے کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں ۔ یہاں اسپیشل اکنامک زون بھی بنایا جا رہا ہے۔ مغربی روٹ پر قبائل کی اربوں روپے مالیت کی زمینیں ہتھیانے کی کوشش کی جا رہی ہے، جسے ہم کسی صورت کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ ہم ترقی کے خلاف نہیں ہیں لیکن ترقی کے نام پر علاقائی مفادات کو قربان نہیں کر سکتے۔

خیال رہے کہ سی پیک کو بلوچ سیاسی و عسکری حلقوں کی جانب سے استحصالی منصوبہ قرار دیا جاچکا ہے جس کے ردعمل میں سیاسی حلقوں کی جانب سے اندرون و بیرون ملک مختلف فورمز پر احتجاج کرنے سمیت بلوچ مسلح آزادی پسند جماعتوں کی جانب سے سی پیک و دیگر تنصیبات کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔

سی پیک، سیندک اور دیگر پراجیکٹس کے باعث بلوچستان میں چائنیز انجینئروں و دیگر اہلکاروں پر سال 2018 سے خودکش حملوں میں شدت دیکھنے میں آئی ہے۔

سال 2018 کے اگست کو بلوچستان کے ضلع دالبندین میں چائنیز انجینئروں کے بس کو، اُسی سال 23 نومبر کو کراچی میں چائنیز قونصلیٹ کو اور 2019 کے 11 مئی کو گوادر میں پانچ ستارہ ہوٹل کو بلوچ خودکش حملہ آوروں کی جانب سے نشانہ بنایا گیا جبکہ گذشتہ سال پاکستان اسٹاک ایسکچینج کو کراچی میں خود کش حملہ آوروں نے نشانہ بنایا تھا۔

مذکورہ تمام حملوں کی ذمہ داری بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی۔ تنظیم کے ترجمان جیئند بلوچ نے بیانات میں واضح کیا کہ مذکورہ حملے بی ایل اے کے مجید بریگیڈ کے ارکان نے کی۔ علاوہ ازیں بی ایل اے سمیت بلوچستان میں سرگرم بلوچ مسلح آزادی پسندوں کی جانب سے بیرونی سرمایہ کاروں کو مختلف اوقات میں بلوچستان میں حملوں کا نشانہ بنانے کا بھی عندیہ دیا گیا ہے۔