بوگس ڈومیسائل و نان لوکل افراد کا بلوچستان کی کمزور کمر پہ وار ۔ تھولغ بلوچ

434

بوگس ڈومیسائل و نان لوکل افراد کا بلوچستان کی کمزور کمر پہ وار

تحریر: تھولغ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک روا رکھا جا رہا ہے، یہ بات گھر کے بڑے خوب جانتے ہیں کہ بلوچستان کی کمر توڑی جا رہی ہے ، وار کرنے کے مختلف حربے استعمال کیۓ جا رہے ہیں ، بلوچستان میں لوٹ کھسوٹ جاری و ساری ہے ، بلوچستان میں پیش آنے والے والے ہزاروں مسائل کے ساتھ ساتھ ایک اہم اور گھمبیر مسئلہ یہاں پہ غیر لوکل افراد کو لا کر یہاں کے مقامی لوگوں کا حق مارنا ہے یہ کام بڑے احسن طریقہ سے سر انجام دیا جا رہا ہے۔

بلوچستان و بلوچ عوام بڑی سادہ اور وفادار قوم ہے، یہاں ایک پانی کے کٹورے کی قیمت سو سال وفا ہے۔ بلوچ قوم کو اپنی سادہ لوحی لے ڈوبی لیکن غیر بڑا مکار اور شاطر ہے ان کی سادہ لوحی کا فائدہ اٹھاتا جا رہا ہے۔

بلوچ قوم  میں بالخصوص کوہ سلیمان بیلٹ میں غیر مقامی افراد کا انبار لگا ہوا ہے ، باركھان ہو ، کوہلو و کاہان  ہو یا  ڈیرہ بگٹی ہو یہاں پہ غیر لوکل افراد یہاں کے مقامی لوگوں سے زیادہ ہوتے جا رہے ہیں اور یہ سلسلہ جان بوجھ کے بڑھایا جا رہا ہے ، تاکہ یہاں کے مقامی لوگوں کے نوالے سے آدھا نوالہ غیر لوگوں کو دیا جائے جو یہاں اپنی چالاکی و مكاری سے آباد ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ سلسلہ پتہ نہیں کب سے شروع ہوا  ہے لیکن رکنے کا نام بھی نہیں لے رہا۔

اگر یہاں ایک فرد آ کے نوکری میں لگتا ہے تو اس فرد کے تمام کے تمام افراد و خاندان یہاں کے آباد و یہاں کے لوکل بنتے جا رہے ہیں۔

اصل میں یہاں پے مقامی لوگوں کا قصور بھی ہے جو اپنی دوستی و اقرابا پروری کرتے جا رہے ہیں مقامی افراد کو  ان غیروں کو یہاں پہ لوکل و ڈومیسائل بنوا کے دینا بہت مہنگا پڑے گا آنے والے وقتوں میں بلکہ ابھی سے مقامی آبادی پریشان و پرسان ہے۔

غیروں کو لانے میں سادہ لوح عوام ، اور سنڈیمن کے بنائے ہوۓ سرداروں کا بہت بڑا ہاتھ ہے، رہی سہی کسر میر و معتبروں نے پوری کر دی ہے۔ غیر لوکل افراد کا اہل علاقے کے لوگوں کے لیے پریشانی و زبوں حالی کا سبب بننا، اہل علاقے کے محدود وسائل کو لوٹنا و حصہ داری بننا ،علاقے کے لاچار و غریب عوام کے حق پہ ڈاکہ ڈالنا ،
جس بھی علاقے میں اگر کوئی افسر باہر کا یعنی غیر لوکل افراد ہو گا اس کا دل اس علاقے کے لوگوں کے لیے پریشان نہیں ہو گا ، بلکہ وہ افسر اپنا پیسہ بناتا رہے گا کسی بھی طرح سے وہ اپنے نیچے کام کرنے والے ملازمین سے رشوت لے کے ان سے کام نہیں لے گا ، یہی کچھ آج بلوچستان میں ہورہا ہے کسی بھی محکمہ کا افسر آگر غیر لوکل ہے تو اس علاقے میں اسی محکمہ کی حالت زار پہ ترس آتا ہے۔

اگر ایجوکیشن کا ہیڈ کوئی غیر ہے تو اس علاقے و ضلع میں ایجوکیشن نہ ہونے کے برابر ہے، پورے ڈسٹرکٹ کی تعلیم کو زبح کیا ہوا ہوتا ہے ، استادوں سے منتھلی لے کے ان کو ڈیوٹی سے آزادی دی جاتی ہے ، جس کا اندازہ  تعلیمی نظام سے لگایا جا سکتا ہے  جو ان علاقوں میں نہ ہونے کے برابر ہیں۔

غیر لوکل افراد کے آنے سے اس علاقے کے کلچر پہ بھی بہت زیادہ اثر ہوتا ہے ، جہاں پہ ان لوگوں کی اپنی شناخت ختم ہوتی جاتی ہے اور علاقے کے لوگ غیروں کا کلچر اپناتے جا رہے ہوتے ہیں ،
لوٹ مار تو غیروں کا کام ہی ہے کیوں کہ وہ آتے ہی لوٹ مار کے لیے ہیں۔

ابھی حال ہی میں بلوچستان کے ایک پسماندہ  ضلع باركھان میں 189 نان لوکل کی ڈومیسائل و لوکل ڈسٹرکٹ آفیسر ( ڈی سی ) نے کینسل کیۓ تھے یہ کینسیلشن ایک دن ایک رات کے دھرنے کے بعد ہوئی تھیں جب باركھان کے نوجوانوں نے باركھان کے شہر ركھنی میں قومی شاہراہ کو بند کیا تھا۔

لوکل تو کینسل ہوۓ لیکن غیر لوکل اتنے شاطر و چالاک اور پہنچے ہوۓ تھے کہ انہوں نے بلوچستان ہائی کورٹ میں اپنا کیس شروع کر دیا جس کا مقدمہ ابھی تک جاری ہے اور یہی بوگس ڈومیسائل و  لوکل رکھنے والے  افراد ابھی بھی اپنے اپنے عہدوں پہ فائز ہیں دکھ اس بات کا کہ بڑے حوصلے سے وہ یہی کہتے پھر رہے ہوتے ہیں کہ کوئی مائی کا لال بھی ہمیں یہاں سے بے دخل نہیں کر سکتا۔

ابھی باركھان میں ایک فلاحی تنظیم باركھان نوجوان  اتحاد نامی ایک تنظیم اس مسلے پہ پیش پیش نظر آتی ہے ، پورے باركھان کی فلاحی تنظیموں نے دل کھول کے اس تنظیم کی ہر ممکن مدد و حمایت کی تھی ،
باركهان کے لوگوں نے دل کھول کے اس قومی مسئلے کے حل کے لیے چندہ بھی دیا جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ باركهان کے لوگ ان غیر قانونی و غیر لوکل افراد کا اپنے ضلع سے صفایا چاہتے ہیں
لیکن سیاسی جماعتوں کی عدم دلچسپی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ یہ عناصر نہیں چاہتے اگر وہ اپنی قوم کے ساتھ مخلص ہوتے تو غیروں کی کیا جرات تھی کہ وہ یہاں آ کے آباد ہوتے اور اپنے لوکل بنوا لیتے
سارے کا سارا کیا دھرا سیاسی لوگوں کا ہے جس کی سزا غریب و لاچار عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔

بلوچستان کے کسی بھی کونے میں اگر بوگس ڈومیسائل و نان لوکل افراد کا خاتمہ کرنا ہے تو وہاں پہ اہل علاقے کی فلاحی تنظیموں ، وكلاء برادری ، ڈاکٹروں اور تاجروں کو اس قومی مسئلے پہ ایک ساتھ چل کے کوئی حل نکالنا ہوگا۔ سیاسی جماعتوں کو اس اہم مسئلے سے اگر دور رکھا جاۓ تو بہتر ہو گا، سیاسی لوگوں نے اس مسئلے پے اپنی سیاست کرنی ہوگی جو کبھی بھی حل ہونے کا نام نہیں لے گا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں