بلوچ؛ آج تُو نالاں اور دشمن شاد ہے ۔ حمل بلوچ

540

بلوچ؛ آج تُو نالاں اور دشمن شاد ہے

تحریر: حمل بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان کے سنگین حالات کا جائزہ لیتے ہوئے کوئی وثوق سے کہہ سکتا ہے کہ ان تمام کے پیچھے بیرونی ہاتھوں کے ملوث ہونے کے ساتھ ساتھ اندرونی معاملات، نادانیوں اور غیر سنجیدگیوں اور بغیر سوچے سمجھے منصوبوں کا بڑا اثر ہے۔

دیکھا جائے تو ہر فرد حکومت سے نالاں اور خون کے آنسوں روتا ہوا ملے گا کہ کہیں نوکریوں کا معاملہ ہے تو کہیں انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ نا ہونے پر رونا دھونا، کبھی طلباء اٹھے اور اٹھائے گئے تو کبھی بوڑھے بچے اور عورتوں کی لاشیں لئے لواحقین دھرنے پہ بیٹھ جاتے ہیں۔ مگر جب دیکھو لواحقین، طلباء و طالبات والدین یا دوسرے قسم کے مظاہرین یونیورسٹی آف بلوچستان کے طلباء کی طرح بنا کچھ حاصل کئے ہی تھکے ہارے دھرنا ختم کرکے بیٹھ جاتے ہیں یا یوں کہہ لیجئے کہ فائدہ سے زیادہ نقصان اٹھا چکے ہوتے ہیں کیونکہ اس سر زمین پر پیر رکھنے والوں کیلئے خیر سے زیادہ شر کا اندیشہ ہوتا ہے۔

عجیب بات تو یہ ہے کہ نقصان کا ازالہ تو یہاں ممکن ہی نہیں الٹا نقصان کو ہی ایک طبقے سے پورے قوم پر پھیلانے کی خاطر خواہ کوششیں کی جاتی ہیں۔

حکومت کی تو بات ہی نہ کریں جو عوام سے کم اپنی انا، دلچسپی یا سیلف انٹرسٹ سے زیادہ لگاؤ لگایا پھرتی ہے۔ معتبرین، حکمران اور میر و سرداروں کی جیب میں تنخواہ سے زیادہ پیسے آجائیں یہی تو انکا اصل مقصد حیات اور غرض ہے وگرنہ عوام چاہے جیسا بھی ہو انہوں نے نہ کان دھرنا ہے نا ہی انہیں فرق پڑتا ہے۔

لمحہِ فکریہ تو یہ ہے کہ عوام کو اتنے ٹھوکریں کھانے کے بعد بھی عقل سلیم نہیں ملی۔ کہاں کا انصاف ہے کہ ریاست کے نقصان دینے کے بعد عوام بھی خود ہی کو خود نقصان پہنچانے پہ تلے ہوئے ہیں؟

ریاست بےگواہ کرے اور ایک ہی نوجوان کو تعلیم، معاشرہ اور والدین کی نظروں سے دور دور کردیں تو ہم لاکھوں بلوچ طلباء و طالبات کو تعلیمی سرگرمیوں سے دور کرکے قوم پرست اور عوام دوست بننے کی دعوی کرتے پھرتے ہیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ آگ کو آگ سے بجھانے کی کوشش کرو اور وہ بجھ جائے؟ خود ہی اس میں جل کر خاکستر ہو جاو تو اسے جیت کہا جائے؟ قطعاً نہیں!

بلوچ قوم آج دشمن شاد ہے؛
جی ہاں آج سامراج خوش ہے کہ ہم پُرامن سیاست اور سیاسی رؤیوں سے اپنی بات منوانے سے ناواقف ہیں۔

جی ہاں، میرا آور آپ کا دشمن آج بہت خوش ہے کہ ہم انکے کئے ہوئے گناہوں کی پاداش میں خود ہی خود کو تعلیم و تدریسی نظام سے دور رکھ رہے ہیں مگر نقصان کس کا؟ آج یونیورسٹی آف بلوچستان بند ہے تو سامراج کو عید منانی چاہیے۔

آج سردار بہادر خان وومین یونیورسٹی بند ہے تو سامراج خوشی سے پھولے نہیں سما رہا اور آج بولان میڈیکل کالج کوئٹہ بند ہے تو سامراج گل آن بال ناچتی ہوگی اور یہاں دھرتی ماتا خون کے آنسو روتی ہوئی پکار رہی ہے کہ میرے بچوں جو بھی کرنا ہے کرو مگر خود ہی خود کو جلا کر، سولی پہ چڑھا کر دشمن کو خوش نہ کرنا۔

یہ کیا کم ہے کہ ہمارا نظام تعلیم مفلوج ہے اور قوم کے مظلوم بیٹے اور بیٹیاں معیاری تعلیم حاصل کرنے کے لیے ترس رہے ہیں، یہ کیا کم ہے کہ ہم تعلیمی میدان میں سب سے پیچھے ہیں اور تعلیمی شعور ہمارے خون میں پہنچنے سے پہلے دم توڑ دیتی ہے کہ اوپر سے تعلیمی اداروں کو بند کرکے بیٹھ جانا؟

کوئی ایک ایسا جواز بتائیں جس سے کہ تعلیمی سرگرمیاں بند ہونے سے ریاست اور ریاستی اداروں کا کچھ بگڑنا ہے؟ بیرون ملک بدنام کرکے اس سے اپنےحقوق حاصل کرینگے؟ مگر جو خود بدنام، بد ذات اور بد اعتقاد ہو اسے ذلیل بدنام اور رسوا ہونے سے کیا فرق پڑنا؟

لگتا ہے ہم خود کی اپنے دشمن ہیں یا اتنے نادان ہے کہ اپنے ساتھ ہونے والے صدیوں پرانی دغابازیوں کوسمجھنے سے قاصر ہیں؟

کیا ہم خود اپنے بلوچ نوجوان، اغواء شدگان اور شہید کئے ہوئے بہن بھائیوں اور بچے بچیوں کے لاشوں پر سیاست کر رہیں ہیں یا دشمن کا بندوق کی نل ہمارے کندھوں پر رکھا ہوا ہے۔ مگر یاد رہے یہ کندھے اپنے بندوق کی نالی دشمن کی طرف کرکے رکھنے کیلئے بنے ہوئے ہیں نا کہ دشمن کے زنگ آلود منجنیقوں کو اپنے بھائیوں کے خلاف اٹھانے۔
یہ کندھے اس سر زمین سے غلامی کی بوجھ اٹھانے کے لیے بنائے گئے ہیں نا کہ غلام بن کہ ان زنجیروں میں قید ہونے۔

آج اپنے ہی لاشوں پر سیاست، اپنے ہی بچے اور بچیوں کو تعلیمی سرگرمیوں سے دور رکھ کر ہم کس کو ہمدردی دکھا رہیں ہیں؟ حکومت کے کاسہ لیسوں کے سامنے ہار مان کر جی جی کر نے والوں سے عرض کرتا چلوں کہ اسی طرح غریبوں کی لاشوں پر سیاست کروگے تو اپنے لاشوں کیلئے گدھ پال رکھنا ہوگا۔

دھرنے پہ بیٹھ کر قوم کو علم کی روشنی سے محروم کرنے کے بجائے دشمن پر وار کرکے اسے مٹانا ہوگا، بےگواہ کرنے والوں (ایف سی) کو اپنے سرزمین سے باہر نکالنا ہوگا تب نا لاٹھی ٹوٹے اور مرے سانپ۔ نہ ہماری سیاست بدنام اور نکما کہلائے نہ دشمن کو عید منانے کا موقع ملے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں