زندان سے قوم کے نام خط ۔ ڈاکٹر عزیز بلوچ

502

زندان سے قوم کے نام خط

تحریر: ڈاکٹر عزیز بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

پتہ مُلک جنگل
ملے بے حٙس قوم کو
مئی 3000
میں قلم اٹھا کر لکھنا چاہ رہا تھا لیکن میرے ہاتھوں میں بندھی وزنی زنجیر کے سامنے انگلیاں بے بس ہیں ، میں زندان کے دیوراوں میں دیکھ کر آپ سے مخاطب ہونا چاہا لیکن آنکھوں پر بندھی سیاہ پٹی مجھے روشنی کی لمس چھونے کی اجازت نہیں دیتی، میں چیخ کر تم سے کلام کرنا چاہا لیکن میرے الفاظ کسی طمانچے کی طرح زندان کی دیواروں سے ٹکراکر واپس میرے چہرے پر پڑتے ہیں، تو سوچا پرانے زمانے کی مذاہب کی طرح میں دل میں خیال لانا چاہتا ہوں امید ہے آپ کوسوں دور میرے خیالات کو وہاں محسوس کرینگے اگر میں چیخ لوں تو آنسو تمہارے آنکھوں سے برس پڑیں گے۔

تمہیں بہار کی آمد کے بعد موسم گرما کی سرسبز و شادابی مبارک ، دراصل میرے جسم کے اکھڑے جلد میں واپس مرھم آنے کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ یہ بہار کا موسم ہے۔ امید ہے تمہارے شہر میں گندم کے خوشے پک گئے ہونگے، ہمیں احساس ہے ان خوشوں کی سورج کے سامنے تپش سے جنگ لڑنے کا کیونکہ ہم چابکوں کی تپش سے روز اپنے بدن کی کھیت سے نیا پودا اکھاڑ دیتے ہیں ، دراصل وہ گندم کے خوشے ہوا کے جھونکوں سے ہل رہے ہونگے تو سمجھنا ہم اپنے ہاتھ کھول کر تمہیں سلامیاں دے رہے ہیں کبھی فرصت ملے تو آپ بھی ہاتھ ہلا کر اس فصل کی طرف سلام کا جواب دے دینا۔

سنا ہے ساون کے موسم میں بادلوں نے تمہیں چاروں طرف سے گھیر لیا ہے ان سے گرجتی آوازیں ہماریں چیخیں جبکہ برسات ہمارے آنسو سمجھ کر ان کی قدر کرنا جو ہمارے رخساروں کی طرح تمہاری زمین کی جبیں پر لکیریں کھینچتے ہیں۔

جب کوئل گیت گالے، جب پھول گال پہ شبنم پالے، جب چڑیا چہچہائیں، جب دہقان ہل چلا ئیں، جب چرواہا چنگ سے گانا گا لے، جب گواڑخ دشت سے پھوٹ پڑے، جب شہد کی مکھی رس جمع کرنے ٹولیوں میں نکلے، جب پہوال ہتھیلی پہ آنگن لئے کاروان کی شکل اختیار کرلے، جب تمہارے سر کے اوپر سے کونج قطاروں میں ملک بدر ہوجائیں تو ہمیں مسکرا کر وہاں ضرور محسوس کرنا حتیٰ کہ آپ ہوٹل پر بیٹھ کر سگریٹ کے آخری کش کے بعد کپ میں چھوڑے ہوئے چائے کی آخری گھونٹ کے زرات میں بھی ہمیں ڈھونڈنا ہم وہیں کہیں ہونگے۔

دراصل ہم آپ کے حصے کی درد اور تکالیف سہہ رہے ہیں ہمارے حصے کی خوشیاں اور کچہریاں آپ منانا بس سمجھنا کہ کسی تاوان کے طور پر ہم نے اپنے جسموں کو آپ کے حصے کی شادابی کیلئے گروی رکھ دیا ہے۔

تم کچھ بھی کرلو، ہنس لو، مہک لو چراغوں میں روشنیوں کیلئے تیل مہییا کرلو بس ایک گزارش ہے ہمارا ” کہ کسی بھی لمحے ہمیں بھولنا مت ہم تم میں سے ہیں ”

آپ کا ش م ق
پتہ گمنام زندان


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں