زندان سے صدائیں – کلمت بلوچ

598

زندان سے صدائیں

تحریر: کلمت بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

تابش آپ کچھ پریشان سے لگ رہے ہو؟ میں نے چائے کا گھونٹ پی کر اُس سے سوال کیا، وہ مُسکراتے ہوئے خشک ہونٹوں پہ دل کو چھونے والی انداز بناکر کہنے لگا کچھ نہیں پُھل بس بےروزگاری اور تنگ دستی کی وجہ سے پریشان ہوں بلکہ یہ پریشانی یہاں ہر دوسرے نوجوان کو درپیش ہے اس پریشانی میں مبتلا ایک میں نہیں ہوں لہٰذا میرے اس پریشانی سے آپ بھی خود کو پریشان نہ کریں کم سے کم پریشان حال تعداد میں اضافہ تو نہ ہوگی، میں نے اُس کی آنکھوں میں ایک نا اُمیدی کی عکس دیکھ کر سمجھ گیا کہ سنگت تابش کچھ ایسے مسئلے پر فکرمند یا پریشان ہے جسے مجھ پر عیاں کرنا نہیں چاہتا، میں نے پھر اصرار کیا کہ تابش اگر کچھ مسئلہ درپیش ہے تو آپ مجھ سے اس متعلق ڈسکس کرسکتے ہو، میں آپ کے دل کے قریب نہ سہی آپ کا قریبی دوست ضرور ہوں، کہنے لگا سنگت ایسا کچھ بھی نہیں ہے کہ آپ سے چھپایا جا سکے بس چند ایک مسائل ہیں، کچھ لوگوں نے مجھے یہ بتایا ہے کہ آپ کا شاعری آپ کیلئے کسی بھی وقت مصیبت بن سکتا ہے، آپ کی کافی شکایتیں ہورہی ہیں حالانکہ میرے شاعری میں وہ درد موجود نہیں جو اُستاد مُرید یا عابدی کے شاعری میں چیدہ چیدہ موجود ہیں اور نہ میرا شاعری ازمنہ ہیکہ جس سے کسی عسکری فوج کو حوصلہ ملے اور وہ یہ سُن کر کئی ریاستیں فتح کریں یا ان سے کسی ریاستی فوج کو شکست کا سامنا ہو، میں تو اپنے محبوبہ کے زلفوں میں قید ہوں اُس کے رخساروں پر محوسفر ہوں اور اُس کے پسینے کی خوشبو میں گم سم ہوں، ہاں لاپتہ راشد حسین اور زاکر مجید کیلئے اور وطن کیلئے لکھی شاعریاں گنتی میں آتے ہیں۔ میں حیران ہوں کہ پھر بھی ریاستی شکایتیں مجھ سے کیوں ہیں، میرے ہاتھ میں قلم ہے وہ بھی کمزور قلم جس کا نوک کبھی بھی ٹوٹ سکتا ہے اتنا مجھ میں ہمت کہاں کہ یہ برقرار رہے، پھر بھی کوئی ہے جو شکائیتیں دے رہا ہے۔ میرے ہاتھ میں کوئی بندوق تو نہیں حتیٰ کہ بندوق برداروں سے بھی ریاستی اداریں اتنا گلہ دار نہیں آپ طالبان کو دیکھیں یا دیگر مذہبی شدت پسندوں کے ساتھ ان کا نرم رویہ دیکھیں، میرا قلم اور میری انسان دوستی آج میرے لئے ایک مصیبت کی گھنٹی بنی ہوئی ہے مجھے میرے شوق سے کیوں دستبردار ہونے کی تلقین ہو رہی ہے سنگت آپ مجھے کوئی مشورہ دیں؟

تابش نے اتنی ساری باتیں ایک ساتھ خوبصورت انداز میں بیان کرکے مجھے سوچ و گمان کے جنگل میں دھکیل آیا، اب مجھے یہاں سے نکالنے بھی تابش کو آنا ہی تھا، میں اپنے دائیں بائیں دیکھنے کے بعد تابش سے مخاطب ہوکر کہنے لگا تابش پُھل آج ہمیں چند سیاسی موضوع پر بات کرنا تھا لیکن آپ کی پریشان حالت کو دیکھ کر میرا سیاسی بھوت کہیں چھپ گیا، دیکھیں تابش میں آپ کے بہت قریب رہا ہوں بلکہ میں آپ کا فیملی ممبر نہ ہوتے ہوئے بھی خود کو ہر وقت آپ کا فیملی ممبر محسوس کیا ہے اس لئے مجھے اتنا حق ضرور ہے کہ آپ کو کم از کم ایک اچھا مشورہ دے دوں.

آپ اپنے شاعری سے ہرگز دستبردار نہیں ہونا، آپ کے شاعری میں امن ہے، شانتی ہے، محبت ہے عشق کی راگ ہے وطن کی خوشبو اور قوم کی آواز ہے، آپ کی وجود آپ کی شاعری ہے، آپ کے الفاظ اس بات کی گواہ ہیں کہ آپ کا دل بیان کر رہا ہوتا ہے اور آپ ان کو شاعری کی شکل میں لکھتے ہو، یہ دھیان رہے کہ دل کی صدائیں خدا کے بہت قریب سے ہوتے ہوئے سب کے سامنے نکل آتے ہیں کیونکہ خدا گر آپ میں کہیں موجود ہے تو وہ دل ہے وہی دل جو جسم میں سب سے مختلف اور خوبصورت ہے ہمیشہ دماغ کو دل پر حاوی ہونے نہیں دینا ورنہ خوف، بزدلی اور کمزوری آپ میں گھر کر لینگے اور آپ ایک خالی خولی دنیا بن کر رہ جائینگے جس کا فائدہ کسی کو ہو یا نہ ہو لیکن آپ کو زندگی بھر بکھیر کر پُرزہ پُرزہ کر دینگے ایسا کبھی ہونے نہیں دینا اپنا اندازِ شاعری جاری رکھنا تاکہ محبت کی زبان ہمیشہ قائم رہے.

تابش میرے باتوں پر غور کرنے کے بعد ایک سرد آہ بھر کر کہنے لگا آپ کو کیا لگتا ہے میں اپنے کئی سالوں کے محنتوں کو اس لئے برباد کردوں کہ کسی کو ان سے مسئلہ ہے بالکل بھی نہیں ہرگز میں ایسا نہیں کرسکتا میں بابا غوث بخش بزنجو کے سیاست پر یقین رکھتا ہوں تب ہی تو بی ایس او پجار میں شمولیت اختیار کی ہے بیشک مجھے نیشنل پارٹی کے پالیسیوں پر اختلافات ہیں لیکن بی ایس او پجار کے پلیٹ فارم سے اپنی سیاسی تربیت تو کرسکتا ہوں شاید مجھے یہاں شعوری طور پر بیدار ہونے کی تعلیم مہیا ہو، اب ایسے سوچ و بچار رکھنے کے باوجود میں اپنے برسوں کی محنتوں کا قتل کرکے اُن کا چتا کیسے جلا سکتا ہوں؟ ایسا بالکل ہرصورت ہونے نہیں دونگا میں اپنا شاعری کا سلسلہ جاری رکھونگا.

اتنے میں ہمارے دو اور ساتھی وہاں پہنچ گئیں اور ہمارا گفتگو یہیں پر اختتام ہوا، آنے والے دوستوں کے ساتھ گفت و شنید کے بعد میں اور تابش نے بازار سے نکل کر اپنے اپنے گھر کا رُخ کر لیا، ایک دن اچانک میرے نظروں سے ایک نیوز گذرا کہ قبائلی اور سیاسی رہنما محمد شریف زہری پر ایک قاتلانہ حملہ ہوا ہے جس کی وجہ سے وہ زخمی حالت میں خضدار ہسپتال رفر کردیا گیا ہے.

میں نے فوراً تابش کو کال کرکے پوچھا کہ بابا پر حملہ ہوا ہے یہ کیسے ہوا ہے اور کب کہاں ہوا ہے بابا اب کیسا ہے اُن سے رابطہ ہوا ہے کہ نہیں اُس نے بےبسی کی سی آواز میں کہا ہاں لاڈی بابا پر حملہ ہوا ہے وہ زخمی ہے اب راستے میں ہیں ہم اُن کے انتظار میں ہیں، عنقریب پہنچنے والے ہیں جب وہ پہنچ گئے تو آپ سے رابطہ کریں گے مجھے ایک کال آرہا ہے آپ سے پھر بات کرونگا۔

اُس کے بعد تابش کو میں نے کافی کالز اور میسجز کئے شاید وہ ہسپتال میں ایمرجنسی مصروفیات کی وجہ سے فون اٹینڈ نہیں کر سکا چار دن بعد مجھے دوسرے ذرائع سے معلوم ہوا کہ تابش کے والد کو کراچی رفر کردیا گیا ہے اور میں عید کے پانچویں دن کراچی کیلئے روانہ ہوا جاکر تابش سے ملاقات کی اُس کے بابا سے ملاقت نہیں ہو پایا کیونکہ اُس وقت وہ آئی سی یو میں تھے جہاں اُس سے ملنے کی اجازت نہیں تھی، تابش کافی پریشان تھا بار بار بابا کے صحتیابی کی درخواست کرتا اُس کا چہرہ جیسے جل چکا تھا پریشانیاں اب اُس کو مکمل گھیر چکے تھے، مجھ سے اُس کی پریشانیاں دیکھے نہ گئے، میں نے اُس سے اجازت مانگا تو کہنے لگا قوم کا اثاثہ خالدپرکانی بھی اسی ہسپتال میں کینسر سے بڑے ڈھٹائی کے ساتھ لڑ رہا ہے اُس سے نہیں ملوگے؟ میں نے کہا نہیں لاڈی وہ پنجاب میں کسی ہسپتال میں ایڈمٹ ہے یہاں آیا تھا مگر یہاں اُس کا علاج نہیں ہو پایا ادھر ہوتا تو اُس سے ضرور ملاقات ہوتی، تابش اپنے شاعری سے تو بے پناہ محبت کرتا تھا ساتھ ہی اپنے ہم زبان شاعروں کیلئے بھی بہت مہر و محبت رکھتا تھا اور پھر اِنہی شاعروں نے تابش کے لاپتہ ہونے کے خلاف ایک پوسٹ یا ایک ٹیویٹ کرنے کی تھوڑی سی تکلیف بھی نہیں کی.

جب تابش کے والد صاحب کو کراچی سے خضدار رفر کردیا گیا میں خضدار میں پہلے سے موجود تھا ہسپتال پہنچا تو تابش انتظار میں تھا اُس کے والد کو لایا جا رہا تھا شاید وہ خود ایک دو دن پہلے خضدار آچکا تھا جب ایمبولینس سیول ہسپتال خضدار میں داخل ہوا تو تابش دوڑتا ہوا ایمبولینس کی جانب بھاگتا ہوا پہنچ گیا دروازہ کھول کر زخموں سے چور بابا سے جا ملا جب واپس اُترا تو اُس کے آنکھوں میں آنسو تھے وہ اپنا چہرہ چھپانے کی کوشش کر رہا تھا.

ڈاکٹر سے مشورہ لینے کے بعد وہ سب علی ہسپتال کیلئے روانہ ہوئے میں تین دن تک وہاں تابش کے ساتھ رہا اُس کے والد سے میرا اچھا خاصا واقفیت تھا، کئی بار ہم تابش کے ذریعے اُس سے مل چکے تھے اُس دن بھی اُس سے  ملنے کا موقع ملا اور اُس کےلئے ضروری سامان یا دوائیاں لانے میں تابش کے ہاتھ بٹاتے رہے اور پھر میں کسی ضروری کام کی وجہ سے وہاں سے روانہ ہوا، چند دن گزر جانے کے بعد مجھے خبر ملی کے تابش کو علی ہسپتال خضدار سے ایف سی اہلکاروں نے اُس کے زخمی والد کے سامنے سے گرفتار کرکے کسی نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے۔ میں ایک دم ہکا بکا رہ گیا اور تابش کا وہ چہرہ میرے سامنے آنے لگا جب وہ ریاستی اداروں کی شکایتیں لےکر مجھ سے باتوں میں تھا، اور میں خود سے باتیں کرنے لگا کہ شاعری بھی اتنی بڑی جرم ہیکہ جس کیلئے اسیر بننا پڑے اور عقوبت خانے نصیب ہوں.

ہم نے اس خبر کو کنفرم کرنے کیلئے تابش کے فیملی سے رابطہ کیا تو انہوں نے بھی اس بات کی تصدیق کی اور سارا تفصیل ہمیں بتا دیا کہ کیسے اور کس طرح تابش بھری ہسپتال سے لاپتہ ہوا اور اُسے لے جانے کے چند گھنٹے بعد ایف سی اہلکار واپس ہسپتال آئے اور گن پوائینٹ کے زور پر ہسپتال انتظامیہ سے سی سی ٹی وی فوٹیج ریکارڈ لے گئیں تاکہ کوئی ثبوت باقی نہ رہے اور ہسپتال انتظامیہ کو دھمکی بھی دی گئی کہ یہ بات باہر نکلنا نہیں چاہیئے، بی ایس او پجار اور عام عوام نے ریاستی اداروں کے اس بےرحمانہ عمل کے خلاف باقاعدہ اختجاج کا اعلان کردیا شال، دالبندین، مستونگ اور بلوچستان کے دیگر علاقوں میں تابش کے ماورائے عدالت گرفتاری اور نامعلوم مقام پر منتقلی کے خلاف احتجاجی ریلیاں بھی کی گئی لیکن تابش کو نہ ملکی عدالتوں میں پیش کیا گیا اور نہ اُسے منظرِ عام پر لایا گیا جو تاحال لاپتہ ہے رب جانے کہ وہ زندان میں اب کیسے کیسے ازیتوں سے دوچار ہے.

تابش ریاستی عقوبت خانوں سے صدائیں دے رہا ہیکہ کوئی ہے جو مجھے اور میرے قلم کی وجود کو بچانے کی کوشش کریں میرے حق میں صدائیں بُلند کرے میرا ہمدرد بنے تاکہ میں بازیاب ہوکر یہ جان سکوں کہ میرا والد اب کیسا ہے، اُس کے صحت سے آگاہ ہوجاؤں اُس کے زخموں کے نشانات کو دیکھ کر مطمئین ہو جاؤں کہ اب وہ بھر چکے ہیں یا نہیں لیکن میں اس کال کوٹھڑی کے مصیبتوں میں بھی اس بات کو باربار سوچتا ہوں کہ میرے والد صاحب کا کیا ہوا وہ اب کس حالت میں ہے اُسے یہ بات کھائی جا رہی ہے، وہ صدائیں دے رہا ہے قوم کے بےحسی کو دور کرنے کے واسطے وہ چیخ رہا ہے چلا رہا ہے مگر اُس کی صدائیں، چیخیں اور بُلند آوازیں کوئی سن نہیں رہا ہے۔

چند روز اُس کے حق میں صدائیں بُلند ہونے کے بعد اب مکمل خاموشی ہے مگر تابش مسلسل صدائیں دے رہا ہے کہ میں نے تو اس قوم کے حق میں لکھا جو لکھا زندانوں میں قید بلوچ نوجوانوں کیلئے لکھا برمش جیسی معصوموں کیلئے آوازیں بُلند کی حیات کے قتل پر خاموش نہ رہا اب میرے لئے تو اتنا کوئی آواز دے جو میرے کانوں تک پہنچ جائیں تاکہ میں بھی مطمئین ہو جاؤں کہ میرے وارث ہیں میں اکیلا بالکل بھی نہیں، وہ من ہی من میں سوچ رہا ہے کہ میرے ہم زبان ماں بولی براہوئی کے تمام شعرا میرے حق میں بات کرینگے میرے انسان دوستی کا ضمانت دینگے میرے شاعری کو میرے لئے جواز کے طور پر پیش کرینگے مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ جتنے بھی براہوئی شاعر تابش سے رابطے میں تھے سب اس مسئلے پر خاموشی اختیار کرچکے ہیں بس چند ایک دو شاعروں نے تابش کیلئے شعر نوشت کئے اور بس. باقی شاید ہمارے جدوجہد کے بدولت ملک کے کچھ نام ور شخصیات اور صحافی تابش کے حق میں ٹیویٹ کی جن میں حامد میر بھی شامل ہیں.

تابش کے چھوٹے بھائی سے میری ملاقات ہوئی، تابش کے حوالے سے جب اُس سے بات چیت ہوئی تو وہ بات کرتے کرتے آب دیدہ ہوگئے اور کہنے لگا کہ تابش اپنے لاپتہ ہونے کے ایک دن پہلے بابا کے دوائی وغیرہ کیلئے کافی بھاگ دوڑ کررہا تھا، پوری رات اُسے جاگنا پڑا تھا تاکہ بابا کی تیمارداری ہو اُس کی تمام ادویات موجود ہوں دوسرے صبح اُسے اتنا وقت ملا کہ وہ نہا دھوکر کپڑے بدل کر پھر ہسپتال پہنچا کیونکہ بابا کو کھانا کھلانا تک اُس کا زمہ داری تھا۔ زخمی والد جس کے بدن میں ہر جگہ گولیوں کے داغ موجود ہیں ہر وقت ایک بندے کا وہاں ہونا لازمی تھا اور تابش یہ سب کچھ دن رات سنبھال رہا تھا اُس دن تابش بینچ پر اپنے بیوی کے قریب بیٹھا ہوا تھا، ایک بار اُس نے تھکان کے مارے اپنا سر گھٹنوں پر رکھ کر سو گیا پھر اپنے بیوی کے کندھے پر سر رکھ کر سو رہا تھا۔ بابا بھی نیند میں تھا باقی سب خاموش ارد گرد میں بیٹھے ہوئے تھے اب سوچتا ہوں تابش ریاستی کوٹھڑیوں میں یہ سوچتا ہوگا کہ اس روایتی سماج میں آخری بار مہربان بیوی کے کاندھے پر دس منٹ تک سونے میں سکون تو ملا اب نہ جانے میرا بیلی کس حال میں ہوگی۔ وہ شاید سوچ رہی ہوگی کہ اُس کا ہم قدم اُس سے دور بہت دور نہ لوٹ آنے والی دوری پہ پہنچائی گئی ہے، ماں تو رات اکثر میرے تھوڑے لیٹ ہونے پر نیند سے جاگ کر بھائیوں کو کہتی کہ وسیم کو کال کرو ابھی تک گھر کیوں نہیں آیا اب وہ ماں کس کیفیت میں ہوگی اب تو میں ہر وقت لیٹ ہوں نظروں سے اوجھل ایک اندھیری تنگ دنیا میں ہوں، میرے ماں پر اب کیا گزر رہی ہوگی اور میرے بہنوں کے آنسو کون روکےگا کون اُن کو تسلی دے گا کہ میں اس تاریک و تنگ کوٹھڑی سے نکل کر پھر واپس لوٹ جاؤنگا؟

تابش زندان سے صدائیں دے رہا ہے اُس کی آواز بنو اُس کو اس ازیت سے نجات دلاؤ اُس کا کوئی قصور نہیں وہ ایک انسان دوست اور امن پسند سوچ و فکر کا پیروکار ہے اُس کے بازیابی کا مطالبہ کرو کیا پتہ آپ کی ایک آواز اُس کے بازیابی میں کارآمد ثابت ہو شاید وہ لوٹ کر واپس آئیں ، اپنے والد کا سہارا بنیں، ماں کو اُس کا لختِ جگر مل سکے، اُس کے بہنوں کی بہتے آنسوں تھم جائیں اور وسیم پھر سے اپنے محبوبہ بیوی کے کاندھوں پر قوم کے بزگی کا خواب دیکھنے لگے۔ اپنے شاعری سے قوم کے دلوں کو چھوتا رہے اور اپنے سیاسی سرگرمیوں سے قومی حق و حقوق پر کام کرسکے تابش آواز دے رہا ہے اُس کی آواز میں اپنا آواز ملاکر اُن کو باور کراؤ کہ جو لوگ قید و بندوں کی تعمیر کرتے ہیں ہم ان وحشت زدہ تعمیرات کو گرانے کی بساط ضرور رکھتے ہیں.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں