تم میرے اندر رُباب کی طرح بج رہی ہو ۔ محمد خان داؤد

302

تم میرے اندر رُباب کی طرح بج رہی ہو

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

کچھ ایسی باتیں ہو تی ہیں جو سچ ہو تی ہیں پر نہیں معلوم ان باتوں پر اعتبار کیوں نہیں کیا جاتا؟
جیسے محبت کی باتیں، جیسے ملن کے باتیں، جیسے پُنر ملن کی باتیں، جیسے کئی جنموں کی باتیں، جیسے سُرگ کی باتیں، جیسے شنکر کی باتیں، جیسے گوتم کی باتیں، جیسے عیسیٰ کی باتیں، جیسے ماؤں کی باتیں، جیسے ان دیکھے جیون کی باتیں، جیسے مرن کے باتیں، جیسے آکاش میں گم ہوجانے کی باتیں، جیسے کسی کے مہمان بننے کی باتیں، جیسے دل کے دھڑکنے کی باتیں، جیسے دل تھامنے کی باتیں، جیسے محبت میں پسینہ آنے کی باتیں، جیسے کسی کے لمس کی باتیں، جیسے کسی کے بدن کی خوشبو کی باتیں، جیسے گرم سانسوں کی باتیں، جیسے کسی کے ہاتھ کنوارے پستانوں کی جانب پہلی بار بڑھ رہے ہوں اور سینے میں دل ایسا ڈوبتا محسوس ہو رہا ہو کہ اس دل کو سانسوں کا کنا رہ کبھی نہ ملے گا، جیسے گلابی ہونٹوں کی باتیں!جیسے کسی کا محبت میں ہاتھ مروڑا جائے وہ ہاتھ چھڑانے کا میٹھا میٹھا اسرار بھی کرتی رہے اور دل میں خدا سے کہتی رہے کہ یہ میرا ہاتھ کبھی نہ چھوڑے تو اس من کے مخفی پن کی باتیں!سیاہ بالوں کے سنہری پراندے کی باتیں!مہکتے بدن کی باتیں!جسم پر محبت کے پسینے کی باتیں!نیلی آنکھوں میں موجود نیلے پانی کی باتیں!دوزانوں کے درمیاں گلابی پھول کی باتیں!
بار بار ایسی محبت بھرے اسرار کی باتیں کہ
،،مجھے تم سے نبیوں جیسی محبت ہے
مجھے تم سے آزادی جیسی محبت ہے
مجھے تم سے کنوارے پستانوں جیسی محبت ہے
مجھے تم سے مذہبی صحیفوں جیسی محبت ہے
مجھے تم سے مہ جیسی محبت ہے
مجھے تم سے محبت میں کی گئی مزدو ری کے پسینے جیسی محبت ہے
مجھے تم سے حیا جیسی محبت ہے
مجھے تم سے محبت،جیسی محبت ہے،،

یہ سب باتیں سچ جیسی سچ ہیں پر اسے میری باتوں پر اعتبار ہی نہیں۔
وہ بھی جانتی ہے کہ میں جھوٹا نہیں۔پر اسے میری یہ سب باتیں جھوٹی معلوم ہو تی ہیں۔اس سچ اور جھوٹ کے بیچ وہ محبت کہاں جائے جس کا جنم کہیں دور دل میں ہوا اور میرے پتلے،نازک ضعیف لب اس بات کا بارِ گراں برداشت نہ کر پائے اور میری ماں جیسی محبوبہ دوست کے خوبصورت کانوں میں اس کا اظہار کر چکے کہ،،مجھے تم سے محبت ہے!،،اس محبت بھرے اظہار کے بعد مجھے یاد آئی وہ بات جو دل کے کسی نہال خانے میں موجود تھی جو کسی دانا نے اپنے چیلے سے کہی تھی کہ؛
،،اگر کسی سے محبت ہوجائے اور دل ملن کا کہے تو اس محبت کو چھپاؤ یہ دنیا محبت بھرے دل کو درد دیتی ہے!،،
یہ بات دل کے نہال خانے سے جب نکلی جب میں اپنی محبوبہ دوست سے محبت کا اظہار کر بیٹھا۔

اور وہ اب تک حیرت میں ہے اور میں پریشان بھی اور پشیمان بھی!
وہ حیرت میں اس لیے ہے کہ اس سے شروع کے دنوں میں بہن ہوکر مخاطب ہوتا تھا اور جیسے ہی بلاتا تھا وہ کہیں بھی ہو تی تھی آن پہنچتی تھی۔ اب وہ میری محبوبہ ہے اور حیرت میں بھی کہ کیا بہنیں بھی محبوبائیں ہوا کرتی ہیں؟ اور میں پریشان بھی اور پشیمان بھی کہ ہائے یہ ہم سے کیا ہوگیا اب وہ بلانے پر نہیں آتی اگر آتی ہے تو عجیب انداز میں اور بہت سے سوالات کرتی ہے اب اک محبت کا مارا دل جواب بھی دے تو کیا!
وہ ہر روز مجھے چھوڑ جانے کے نئے نئے بہانے تلاشتی رہتی ہے اور میں اس کے قریب ہونے کے
قریب ہونے کے اور چھوڑ جانے کے بیچ وہ محبت کہاں جائے
جس کا جنم دل میں ہوا!
کاش وہ فرید کی اس بات کو سمجھے کہ
،،دل ماہی دے نال لوکو
میں ڈھولن دی
ڈھولن میڈا
باقی سب کوڑ دھوکو!
دل ماہی دے نال لوکو!،،

منہ کی زبان ساتھ نہیں دیتی! دل کے پاس زباں نہیں۔اور دل کا یہ اسرار ہوتا ہے کہ است قریب کرو اسے اپنی بہانوں میں لو۔اس کے گلابی گالوں کو چوموں۔اس کے سیاہ بالوں کو چوموں۔اس کے لال ہونٹوں پر محبت کا بوسہ رقم کرو!ہم سے کچھ نہیں ہوتا۔وہ تو اب بُلانے پر بھی نہیں آتی۔اگر آتی ہے تو بہت لڑتی ہے دل میں موجود محبت شرمسار ہو تی ہے۔کاش محبت کو زباں ہو تی تو وہ سب کہہ دیتی جو اسے کہنا ہے۔

زباں!دل!محبت کے بیچ جو محبت کا جنم ہوا وہ محبت کہاں جائے؟
اسے چلے جانا ہے۔وہ ہم سے جا چکی ہے۔وہ چلی جائیگی!یہ دنیا بہت وشال ہے پھر اس کے کنو ارے دل میں محبت کا جنم ہوگا۔کسی کے قریب جائیگی۔کیسی کے بدن کی مہک کو محسوس کریگی۔کسی کے ہونٹوں کا لمس جان پائیگی!کسی کے ہاتھ اس کے کنو ارے پستانوں کی اور بڑھیں گے وہ محبت کی وادیوں میں پونچھ جائیگی!کوئی محبت کا مزدور رات بھر اسے جگائے رکھے گا۔دونوں کے جسم محبت کی مزدو ری میں پسینے سے شرابور رہنگے۔رات کی سیاہی ڈھل رہی ہوگی رات کے بطن سے دن نمودار ہو رہا ہوگا محبت کی پیاسی آنکھیں کسی کے گورے بدن کو دیکھیں گی۔وہ جانا چاہیگی وہ جانے نہ دیگا۔پھر دونوں لپٹ جائینگے۔محبت کا مزدور اس کے گورے جسم پر ایسے گر پڑے گا جیسے پیاسا پانی کے ڈول پر
کبھی پستان کو چومے گا۔کبھی صراحی جیسی گرن سے گھونٹ بھرے گا۔کبھی نیلی آنکھوں کے ساحلوں میں ڈوبے گا۔کبھی سیاہ بالوں کے بادلوں میں بھیگے گا۔کبھی پستانوں میں وہ صور پھونک دیگا کہ
صدا،،کُن فیکون،،بھی تماشہ دیکھتی رہ جائیگی!
کبھی دونوں کنوارے پستانوں کے بیچ اتر جائیگا۔کبھی اس پیالے میں محبت نوش کریگا جس کو جون ایلیا نے محبت کا پیالا کہا ہے۔وہ محبت کے جسم پر ایسے سواری کریگا جیسے بے سمجھ اور معصوم بچے ماؤں کی گودوں پر سواری کرتے ہیں!
اور وہ مجھے بھول جائیگی!میری محبت کو بھول جائیگی!ان باتوں کو بھول جائیگی جس باتوں میں ایسی باتوں کا اقرار تھا کہ،،مجھے تم سے حیا جیسی محبت ہے!،،وہ سب کچھ بھول جائیگی پر میں تو بھول جانے کی اداکاری بھی نہ کر پاؤں گا!
کیوں کہ میرا دل تھا جس میں محبت گھر کر گئی تھی۔جس دل میں محبت مہمیز کر گئی تھی
وہ جا چکی ہوگی اسے جانا ہی تھا اور وہ چلی جائیگی
پر اس دل کا کیا جو محبت میں اسیر ہوا اور اب تک اسیر ہی ہے
محبت کے کئی ساز تھے جو بجھ گئے جو خاموش ہو گئے
پر وہ میرے دل میں اب تک بج رہی ہے کسی رُباب کی ماند
کاش میں اس سے بس ایک بار اتنا کہہ سکوں جو میری ماں جیسی محبوبہ ہے
جس سے مجھے محبت ہے۔
،،سنو!
تم میرے اندر رُباب کی طرح بج رہی ہو!
جانا چاہتی ہو؟
تو چلی جاؤ
پر تم
میرے اندر
کسی سیمفنی کی ماند
بجتی رہوگی
بجتی رہوگی
بجتی رہوگی
رُباب کی ماند محبت کے سروں میں!،،
پر میری تو سب باتیں جھوٹی ہیں وہ ان بات پر بھی اعتبار کیوں کر کرے؟


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں