استاد ثنا بہار: زندگی، شخصیت اور جد وجہد – ریاست خان

460

استاد ثنا بہار: زندگی، شخصیت اور جد وجہد

تحریر: ریاست خان

دی بلوچستان پوسٹ

گزشتہ سال 25 دسمبر 2020 کو بلوچ ریپلکن آرمی کے مرکزی ترجمان بیبگر بلوچ نے میڈیا کو ایک پریس ریلیز جاری کرتے ہوئے ضلع پنچگور کے علاقے کیلکور سیاہ لک میں تتظیم کے ریجنل کمانڈر ثنا بہار کی شہادت کی تصدیق کرتے ہوئے ان کی فوجی صلاحیتوں کے اعتراف میں انہیں استاد کے لقب سے نوازا، وہ بی آر اے کے پلیٹ فارم سے جد وجہد کرنے والے پہلے سپاسی ہیں جن کی فوجی خدمات کو سراہتے ہوئے انہیں اس اہم لقب سے نوازا گیا ہو۔ بیبگر بلوچ کے مطابق کئی گھنٹوں طویل اس اہم فوجی معرکے میں جس کی کمانڈ خود ثنا بہار سنبھال رہے تھے، میں پندرہ سے زیادہ دشمن اہلکار ہلاک ہوئے لیکن دشمن فوجیوں کی امداد کیلئے آنے والے ہیلی کاپٹروں کی شیلنگ سے ثنا بہار شہید ہو گئے تھے۔

لیکن محض ایک تنظیمی پریس ریلیز ان کی شخصیت ان کی زندگی کے اتار چڑھاؤ اور ان کی لازوال جدوجہد کا جامع خلاصہ پیش کرنے کا حق قطعاً بھی پورا نہیں کر سکتی ان کی جدوجہد اس سے کہیں زیادہ کا طلبگار ہے، محض ایک پریس ریلیز یا مجھ جیسے کسی کم فہم لکھاری کی ایک ادنیٰ سی تحریر ان کی آٹھ سالہ تگ و دو، اور ان آٹھ سالوں میں گزارے ہر ایک دن کی کہانی بتانے سے قاصر ہے، یا یوں کہا جانا بہتر ہے کہ جس ثنا بہار کا خاکہ تنظیمی پریس ریلیز میں کھینچا گیا وہ اصل ثنا بہار ہے ہی نہیں، یا جس ثنا بہار کی تخلیق میں اپنی تحریر میں کرنے جارہا ہوں وہ بھی حقیقی ثنا بہار سے بہت ہی کم میل کھاتی ہے، اصل ثنا بہار کو کسی تحریر میں اتارنے کیلئے لکھاری کو خود ثنا بن کر آٹھ سالوں تک محو سفر ہونا پڑے گا اور اُن آٹھ سالوں میں ہر نئے دن جو کہانیاں تخلیق پاتی ہیں یا جن تلخ تجربات کا حصول ہوتا ہے ان تجربوں اور تخلیقات کے خلاصے ہی میں اصل ثنا بہار کی تلاش ممکن ہو سکتی ہے۔

راقم تحریر قاری کیلئے اعتراف کرتا چلے کہ اس تحریر میں پیش کئے گئے ثنا بہار اور اصل ثنا بہار میں زمیں آسمان کا فرق ہے، یہ تحریر ان کی زندگی اور قومی تحریک کیلئے سرانجام دیے گئے بے لوث خدمات کا محض ایک مختصر سا تعارف ہے جب کہ ثنا بہار کا بے باک کردار ، ان کی قومی خدمات اور ان کی شخصیت اس سے زیادہ و بہتر کا تقاضا کرتی ہیں۔

بچپن سے جوانی تک کا سفر:

بلوچوں کی وسیع و عریض سرزمین کی سرحدیں بہت ہی طویل اور لمبی ہیں جو مغرب میں بندر عباس کے پر فضا ساحلوں سے شروع ہوکر مشرق میں لسبیلہ کے گرم میدانوں اور جنوب میں بحر بلوچ کے کناروں پد آباد ماہی گیر بستیوں سے جھالاوان و سراوان کی خوبصورت وادیوں کو سمیٹتے ہوئے شمال میں کوہ سلیمان کے پہاڑی سلسلے سے بھی اس پار کے بلوچ آبادیوں تک جا کر ختم ہوتی ہیں۔

بلوچ سماج لسانی، قبائلی، مذہبی اور انتظامی تقسیم کا شکار ہے، ایک انتظامی وحدت اور مظبوط بلوچ مرکز کی غیر موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قابضین منظم منصوبہ بندی کے تحت سماج میں پہلے سے موجود تقسیمات و تضادات کو ناقابل یقین حد تک ابھارنے اور مضبوط کرنے کی کوششوں میں مصروف رہی ہیں۔ جس کا واضح و حتمی مقصد بلوچوں کو اپنی سلب کی گئی قومی تشخص کی بحالی سے روکنا ہے کیونکہ بلوچ وحدت کے قیام سے نہ صرف ان کے نام نہاد سرحدوں کی تقسیم ہوگی بلکہ ساتھ ہی ساتھ فطری اصولوں کے برخلاف کھڑے ان کے وجود کا بھی شیرازہ بکھر جائے گا۔ دشمن کے ایسے اقدامات نے جہاں ایک طرف ہماری اجتماعی و قومی زندگی کو شدید نقصانات سے دوچار کیا ہے تو وہیں اس کے ردعمل کا اظہار بھی شدید رہا ہے۔ ایسے اقدامات نے مجموعی طور پر بلوچوں میں غلام ہونے کے احساس کو شدت کے ساتھ ابھارا ہے ، بلوچ اپنی دھرتی کے جس بھی کونے میں آباد ہیں ان سے اپنی زندگی اپنے طور جینے کی آزادی چھین لی گئی ہے۔

غلاموں کی اس دھرتی بلوچستان کے مشرقی حصے میں ایک پسماندہ علاقہ جسے واشک کہا جاتا ہے استاد ثنا بہار کا آبائی علاقہ ہے، واشک میں چاروں اطراف پھیلے ریت کے ٹیلے یہاں انسانی زندگی کو دیگر علاقوں کی نسبت سخت بنا دیتی ہیں، دنیا کی جدید سہولیات سے محرومی پانی کی قلت اور ریاستی استحصال نے یہاں زندگی کی رفتار اس قدر سست کر ڈالی ہے کہ واشک پسماندہ بلوچستان کا پسماندہ ترین ضلع ہے۔ ثنا بہار کا جنم اس استحصال زدہ، پسماندہ قصبہ کے ایک انتہائی غریب گھرانے میں ہوا۔ ان کے بچپن کی کہانی بلوچستان کے دوسرے بچوں کی کہانیوں سے مختلف نہیں جہاں بچے ہوش سنبھالنے سے پہلے ہی اپنے قصبوں اور شہروں کو بندوق بردار فوجیوں کے حصار میں قید پاتے ہیں۔

آپ ثنا کی زندگی کے شروعاتی دنوں کی داستان کو واشک کے ریتیلے میدانوں میں جبر و استحصال کے سائے تلے زندگی اور موت کے بیچ جونچ رہے بچوں میں اب بھی تلاش سکتے ہیں۔ بلوچستان کے دیگر بچوں کی طرح ثنا کا بچپن بھی غربت اور ریاستی استحصال کی نظر ہو کر انتہائی پسماندگی میں گزرا۔

ثنا کی عمر ابھی پانچ سال بھی نہ ہوگی، انہوں نے ابھی تک ہوش بھی نہ سنبھالا، دنیا و دنیاداری کی سمجھ بھی نہ پائی کہ اپنی والدہ محترمہ کی انتقال کی صورت میں اپنی زندگی کے سب سے بڑے صدمے سے روبرو ہوئے، ثنا کی کم عمری ہی میں ان کے والدہ محترمہ کا انتقال ہو گیا اور اس طرح سنگت ثنا کی پرورش کی تمام ذمہ داری ان کے والد کے سر آئی۔ بہتر روزگار کے تلاش اور ثنا کو بہتر تعلیم دلانے کی نیت سے ثنا کے والد ان کے ہمراہ واشک سے پنجگور چلے آئے۔ پنجگور واشک کے لحاظ سے کئی حوالوں سے الگ اور منفرد تھا یہاں زندگی کی رفتار قدرے تیز تھی، واشک کے نسبت یہاں قطعہ زمین ریتیلی نہیں بلکہ سخت اور پتھریلی ہے، یہاں روزگار اور بہتر تعلیم کے مواقع بھی زیادہ تھے چاروں اطراف موجود کجھور کے درخت شہر کی قدرتی حسن کو اور بھی چار چاند لگا دیتے ہیں، وافر مقدار میں کھجوروں کے باغات کی وجہ سے پنجگور کے شہر کو کجھوروں کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔

ثنا کے والد نے وہاں آنے کے چند ہی دنوں بعد اسکول میں ان کا داخلہ کرایا۔ ثنا کے متعلق جاننے والے بتاتے ہیں کہ وہ بچپن ہی سے ذہین تھے اس لئے اسکول میں ان کی کارکردگی بہت ہی نمایاں رہی، وہ ہر معاملے میں کود پڑتے تھے ان میں تحقیق، تخلیق اور جاننے کی شدید خواہش رہتی تھی، ان کے مزاج میں ایک عجیب سی بے صبری رہتی جو شہادت کے دن تک ان کے عمومی مزاج پر ہاوی رہی، اسی بے صبری کے رہتے وہ کبھی چین سے نہ بیٹھتے بلکہ ہر وقت کسی تخلیقی خیال پر کام کرتے رہتے۔

ثنا ابھی تک اسکول ہی میں زیر تعلیم تھے، عمر میں چھوٹے ثنا بہار سماجی پیچیدگیوں اور دنیاوی لین دین کے متعلق بنیادی شعور سے کوسوں دور تھے کہ انہیں اس بے رحم دنیا میں اپنی زندگی و مستقبل کی جنگ اکیلا لڑنے کیلئے چھوڑتے ہوئے ان کے شفیق والد رضاالہی سے وفات پا گئے۔ ثنا مکمل طور پر یتیم ہو گئے ماں باپ کی جدائی کا غم یقیناً کسی کم عمر لڑکے کیلئے قیامت سے کم نہیں جس کا نہ رہنے کا ٹھکانہ ہو اور نہ ہی کھانے کا کوئی بندوبست لیکن ہمت اور حوصلہ کا پیکر ثنا جلد ہی اس صدمے سے باہر نکلے، انہوں نے نہ صرف اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا بلکہ ہر موڑ پر پیش آنے والے آزمائشوں کا بھی مقابلہ کیا۔

ثنا کے والد کی وفات کے بعد جن رشتہ داروں کے ہاں ثنا کی رہائش تھی وہاں بن ماں باپ کے ثنا پر تند و تیز الفاظ کے نشتر کسے گئے، ان کی موجودگی کو حقارت بھری نظروں سے دیکھا جانے لگا لیکن حالات کی مار کھائے ہوئے ثنا بہار مجبوراً سب کچھ برداشت کرتے رہے پر بات صرف حقارت سے پر نظروں ، بے کار ہونے کے طعنوں و بے رخی تک محدود نہ و بے رخی تک محدود نہ رہی بلکہ ایک دن ثنا بہار کو صاف صاف گھر سے ہی نکل جانے کا کہا گیا۔

ایسے میں جب اپنوں نے ساتھ چھوڑا تو وہیں کچھ انجان لوگ ان کا سہارا بھی بنے، اس بیچ سنگت ثنا بہار کی زندگی خانہ بدوشوں سی ہو گئی تھی، نہ رہنے کا کوئی مستقل ٹھکانہ تھا اور نہ ہی روزگار کا لیکن ثنا نے حالات کی عطا کردہ اس کٹھن آزمائش کا بھی بہادری سے مقابلہ کیا، انہوں نے نہ صرف اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا بلکہ اپنی ذاتی اخراجات کا بوجھ بھی ایک نجی اسکول میں بچوں کو پڑھا کر خود اٹھایا۔

مسلح مزاحمت میں شمولیت:

نواب اکبر خان بگٹی اور شہید بالاچ مری جیسے قدآور رہنماؤں کی شہادت نے پورے بلوچستان میں پہلے سے موجود مزاحمتی سوچ کو مزید جلا بخشنے میں اہم کردار ادا کیا، سیاسی سرگرمیوں میں تیزی آئی عام لوگ قابض ریاست کیلئے اپنے دلوں میں چھپے نفرت کا برملا اظہار کرنے لگے، پنجابی اور بلوچ کے درمیان نفرت کی دیوار مذید اونچی ہوتی گئی،دشمن نے ابھرتی سیاسی شعور کا راستہ تشدد سے روکنے کی بھرپور کوشش کیں ایسے ہی ایک اقدام میں 2009 کو غلام محمد، شیر محمد اور لالا منیر کی زیر حراست شہادت نے پورے بلوچستاں اور خصوصاً مکران میں آزادی پسندانہ سیاست پر شدید اور دور رس نتائج مرتب کئے، ان رہنماؤں میں لالا منیر کا تعلق پنجگور سے تھا، ان کی شہادت کے بعد پنجگور کے ماحول میں بے چینی کی عجیب سی فضا قائم ہوئی۔ لوگوں نے محسوس کیا کہ سیاسی طریقہ جدوجہد ریاست کو قبول نہیں اور نہ ہی اس طریقہ جدوجہد سے کام کرنے کی کوئی جگہ چھوڑی گئی ہے، اس سوچ سے پہلے سے چل رہے مسلح جدوجہد میں تیزی آ گئی، اچانک پنجگور میں حالات کشیدہ ہو گئے، آئے روز گولیوں و دھماکوں کی آوازوں سے پورا شہر گونج اٹھتا، پنجابی تاجر و آبادکار مقامی لوگوں میں اپنے خلاف بڑھتے غصے کو دیکھتے ہوئے شہروں سے نکلنے لگے، یکایک مسلح تنظیموں میں نئے شامل ہونے والے نوجوانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔

استاد ثنا بہار بھی ان نوجوانوں میں شامل تھے جو قومی غلامی سے نجات کا راستہ مسلح جدوجہد کو سمجھتے تھے، ثنا نے کسی طرح بی ایل ایف کے ایک اربن گوریلہ سیل کے کمانڈر سے رابطے قائم کئے اور اپنی خدمات پیش کرنے کا کہا لیکن ثنا کی کم عمری کو دیکھتے ہوئے انہیں تنظیم میں بھرتی کئے جانے کی درخواست مسترد کی گئی اور انہیں انتظار کرنے اور اپنے فیصلے پر مزید سوچ بچار کا کہا گیا۔ ثنا نے خاموش رہ کر مزید دو سال انتظار کیا اور 2012 میں ایک بار پھر بی ایل ایف میں شمولیت کی درخواست دی جسے اس مرتبہ منظور کیا گیا۔

ثنا کو تنظیم میں شمولیت کے اگلے ہی دن جاسوسی کے ایک مشن پر بھیجا گیا، یہ ایک طرح کا امتحان تھا جس سے مقصدد ان کی ہمت و برداشت کو جانچنا تھا، ثنا کو احکامات ملے کہ وہ شہر کے اندر ایک مخصوص فوجی کیمپ کے اندر چل رہی نقل و حمل، گاڑیوں اور وہاں موجود سپاہیوں کی تعداد کا اندازہ لگائے اور گوریلا سیل کو رپورٹ کرے،۔ ثنا نے احکامات کی بجا آوری کی وہ رات کی تاریکی میں کیمپ کے سامنے موجود دکانوں کے چھت پے چڑھے اور رینگتے ہوئے اس جگہ تک آئے جہاں کیمپ کا مرکزی دروازہ اور اندر موجود نقل و عمل کا جائزہ لیا جاسکتا تھا، ثنا پوری رات بنا پلکیں جھپکائے وہیں پر لیٹے رہے اور کیمپ میں گاڑیوں اور سپاہیوں کی آمدورفت، وہاں موجود مورچوں کا جائزہ لیتے رہے اور صبح کی پہلی کِرن سے پہلے ہی وہاں سے نکل آئے، شام تک اپنے تمام جائزے، جانکاری اور وہاں موجود مورچوں کا نقشہ سیل کمانڈر کو ارسال کیا اور اس طرح اس امتحان کے ساتھ وہ شہری گوریلہ بننے کے معیار پر پورے اترے۔

عام طور پر یوں ہوتا ہے کہ اربن گوریلہ دستوں سے وابستہ سپاہیوں کی گوریلا ٹریننگ پہاڑی مراکز میں ہوا کرتی ہے لیکن ثنا کے اکثر جاننے والے پہاڑوں میں موجود تھے اس لئے ان کو وہاں فوجی تربیت کیلئے بیجھا جانا مناسب نہ سمجھا گیا کیونکہ جتنے کم لوگ بحثیت گوریلا آپ کی شناخت و سرگرمیوں سے واقف ہونگے اتنے ہی زیادہ دیر تک آپ بطور شہری گوریلا کام کرسکتے ہیں ۔اس اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے ثنا کو فوجی تربیت حاصل کرنے کیلئے ایک مذہبی شدت پسند تنظیم میں شامل کرانے کا منصوبہ بنایا گیا۔ ثنا نہ چاہتے ہوئے بھی تنظیمی فیصلے کے سامنے بے بس تھے، ثنا نے مذہبی تنظیم کے ارکان سے نزدیکیاں بڑھائیں اور ان کی صفوں میں شامل ہوئے جس کے بعد انہیں مذہبی شدت پسند تنظیم کے کیمپ فوجی تربیت کیلئے بیجھا گیا وہاں وہ کئی مہینوں تک سخت ترین فوجی تربیت حاصل کرتے رہے اور جب واپس آئے تو مذہبی شدت پسند تنظیم کے ارکان کے سامنے جنگ سے خوف کا بہانہ بنا کر الگ ہو گئے اور واپس بی ایل ایف کے اربن گوریلا سیل میں کام کرتے رہے۔

وہ جلد ہی شہری گوریلا کارروائیوں میں ماہر ہوئے، وہ ایک مایہ ناز ٹارگٹ کلر ثابت ہوئے، اس کی وجہ ان کی پھرتی اور تیزی تھی، وہ اپنے مشن کو لیکر گھنٹوں منصوبہ بندی کرتے ، اس کے تمام پہلوؤں پر غور کرتے لیکن جب سب کچھ پورا ہوتا تو اپنا کام انتہائی تیزی کے ساتھ سرانجام دیتے تھے اور اسی تیزی و ہوشیاری کے ساتھ موقع واردات سے نکل آتے۔

وہ چار سالوں تک بی ایل ایف سے منسلک رہے، اس بیچ پنجگور شہر میں کئی اہم گوریلا کاروائیاں سرانجام دیے، مقامی مخبروں کو ٹارگٹ کرنے سے لیکر ڈیتھ اسکواڈ سے منسلک اہلکاروں کی ہلاکت، فوجی گاڑیوں کو بم دھماکوں سے ٹارگٹ کرنے اور فوجی چوکیوں پر راکٹوں سے حملہ کرنے تک نیز ہر قسم کی کاروائیوں میں شامل رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ دشمن اور دشمن کے مقامی زرخریدوں کی تفصیلات، عزائم اور دیگر معلومات نکالنے کیلئے بھی کوشاں رہتے، ایک ایسے ہی واقعہ میں استاد ثنا کو معلومات یکجا کرنے کیلئے ایک مخصوص گروہ سے نزدیکیاں بڑھانی پڑیں مزکورہ گروہ کے افراد منشیات پینے کے عادی تھے ثنا نے گروپ میں شامل ہونے سے پہلے ہیروئن اور کرسٹل جیسی انتہائی خطرناک منشیات کا استعمال کیا تاکہ وہ جب وہاں پر جائیں تو سامنے بیٹھے لوگ ان پر کوئی شبہ نہ کریں بلکہ اسے اپنے جیسا ہی تصور کریں۔

بی آر اے میں شمولیت:

ثنا چار سال تک گمنام رہ کر کام کرتے رہے اس تمام عرصے میں بحثیت شہری گوریلا ان کی شناخت عام لوگوں اور دشمن سے پوشیدہ رہی ، وہ رات کو مسلح ہو کر گوریلا کاروائیاں سرانجام دیتے اور دن کو عام انسان بن کر گھر سے نکلتے۔، کوئی عام انسان یہ تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ اسکول میں بچوں کو پڑھانے والا اور انتہائی عام نظر آنے والا یہ نوجوان لڑکا اس طرح کی خطرناک سرگرمیوں میں بھی ملوث ہوسکتا ہے لیکن 2016 کو ان کے گوریلا یونٹ سے منسلک چند دوستوں کی شہادت اور کچھ کی گرفتاری سے ان کا گوریلا سیل ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا، دشمن کے سامنے ان کی اصل شناخت واضح ہوگئی۔ ثنا ممکنہ گرفتاری سے بچنے کیلئے شہر میں ہی کہیں روپوش ہوگئے۔ وہ کسی بھی طرح شہر سے نکلنا چاہتے تھے لیکن تنظیمی دوستوں سے رابطے نہ ہونے کی وجہ سے وہ کئی روز تک شہر میں ہی پھنسے رہے۔ کئی دونوں کی کوششوں کے بعد بی آر اے کے دوستوں سے ان کا رابطہ بحال ہوا اور اس طرح وہ بی آر اے کے دوستوں سے آ ملے اور یہیں رہ کر کام کرنے کو ترجیح دیا۔

بی آر اے میں شمولیت کے بعد تنظیمی ضروریات کے پیش نظر استاد ثنا کو زامران اور کلبر کے محاذوں پر بیجھا گیا، ثنا کئی مہینوں تک وہیں پر خدمات سر انجام دیتے رہے۔ کلبر کے محاذ پر ثنا کے قریب رہنے والے ایک دوست کے مطابق ثنا کو وہاں آئے کچھ ہی وقت گزرا تھا کہ کیمپ پر اچانک پاکستانی افواج کے گن شپ ہیلی کاپٹروں نے حملہ کردیا، حملہ اچانک ہوا تھا اس لئے کسی منصوبہ بندی کے بغیر کیمپ کے دوست اپنی بندوقیں اور پانی کی بوتلیں اٹھائے چاروں اطراف پھیل گئے اور جھاڑیوں و چٹانوں کا سہارا لے کر کیمپ کی لوکیشن جس پر ہیلی کاپٹرز شدید شیلنگ کر رہے تھے سے خود کو دور نکال سکیں لیکن ثنا اور ایک دوست دو پہاڑوں کے بیچ چھوٹی سی ندی کو پار کرتے وقت دشمن کو نظر آ گئے تھے، کچھ ہی سیکنڈوں میں دشمن کے دو ہیلی کاپٹر ان کے سر پر منڈلا رہی تھیں، جب ہیلی کاپٹر ان کی لوکیشن پر شیلنگ کررہی تھی تو ثنا اور ان کے دوست پہاڑی چٹانوں کی کور لے کر چھپے رہے، کچھ دیر کی شیلنگ کے بعد جب ہیلی کاپٹر وہاں سے ہٹے اور مڑ کر جب واپس اس جگہ کو آئے تب تک ثنا اگلے کور تک پہنچ چکے تھے اور ان کی لوکیشن ڈھونڈنا ناممکن ہو گیا تھا کیونکہ ثنا Camouflage and concealment یعنی چپھاو اور تلبیس کے فوجی اصولوں سے اچھی طرح سے واقف تھے ، دو گھنٹے کی فضائی آپریشن کے بعد تمام دوست سلامت رہے محض کیمپ کے مرکز میں پڑا راشن وغیرہ دشمن فوج کی فضائی کارروائی کے نظر ہو گیا تھا۔

اسی دوران ثنا کو استاد کہہ کر پکارا جانے لگا کیونکہ وہ ہر فن مولا انسان تھے، وہ بہ یک وقت سیاسی معاملات پر تبصرے بھی کرتے، نئی آنے والے سپاہیوں کو فوجی تربیت بھی دیتے اور ہر قسم کے ہتھیاروں کے متعلق اچھی خاصی جانکاری رکھنے کے ساتھ ساتھ ان کی چھوٹی موٹی خرابیاں بھی درست کرتے تھے ۔

استاد ثنا نے یہیں پر بی آر اے کے elite commando unit کی تربیت بھی کی جسے فلمانے کے بعد تنظیم کی نشر و اشاعت کے ادارے سے شائع کیا گیا۔

ان کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے انہیں بی آر اے مکران ریجن کے کمیٹی کا رکن بھی چنا گیا۔

زامران اور کلبر کے بعد ثنا کو ضلع آواران اور پنجگور کے مختلف کیمپوں میں بیجھا گیا جہاں وہ کئی گوریلا حملوں میں نہ صرف شامل تھے بلکہ اکثر اوقات ان حملوں میں کمانڈر کی زمہ داری بھی سنبھالتے تھے۔

بی ایل اے میں شمولیت اور مایوسی:

دو سال تک بی آر اے کے پلیٹ فارم سے کام کرنے کے بعد بہت سی انتظامی مسائل پر استاد ثنا بہار کی تنظیمی ذمہ داروں سے اختلافات بڑھ گئے،۔ وہ بی ایل اے کے کام کرنے کے طریقہ کار سے متاثر ہوئے اور بی ایل اے کے دوستوں سے رابطے قائم کئے اور تنظیم میں شمولیت کیلئے کہا لیکن ان کی بی ایل اے میں شمولیت بی آر اے کے اس وقت کے مکران ریجن کے کمانڈر گلزار امام کی رضامندی سے مشروط تھی۔ گلزار امام کے رضامندی سے ہی وہ بی ایل اے میں شامل ہوئے۔

بی ایل اے میں شمولیت سے قبل ایک حادثہ میں ان کے ایک پیر کو شدید موچ آیا تھا، انہیں آرام کی اشد ضرورت تھی لیکن وہ آرام کے قائل انسان نہیں تھے، دوستوں کے منع کرنے کے باوجود وہ ایک پیدل گشتی ٹیم میں شامل ہوئے جسے پندرہ دنوں کے اندر سی پیک روٹ کی سکیورٹی کیلئے لگائے گئے کیمپ، چوکیاں، ان میں موجود فوجیوں کی تعداد، وہاں تک پہچنے اور نکلنے کے محفوظ راستوں کی جانکاری حاصل کرنی تھی، پندرہ دنوں کے بعد جب وہ واپس کیمپ آئے تو پیر مزید خراب ہو گیا تھا، اگلے تین دنوں تک ان کا پیدل چلنا ہی محال ہو گیا تھا۔ ایک ہفتے بعد جب پیر کچھ بہتر ہوا تو شہید کچکول جو بعد میں گوادر پرل کانٹیننٹل ہوٹل پر بی ایل اے کے فدائی حملے میں شامل تھے کے ساتھ ایک اور سفر پر روانہ ہوئے انہیں ہوشاب میں مائن کاری کیلئے بیجھا گیا، لیکن سخت محنت کے بعد بھی انہیں اپنے مشن میں کامیابی نہ مل سکی اور وہ ایک ہفتے بعد واپس کیمپ چلے آئے، کیمپ آنے کے کچھ ہی دنوں بعد ایک اور گشتی ٹیم کا حصہ ہوئے جسے سی پیک روٹ کی حفاظت پے مامور ایف سی اہلکاروں پر گھات لگا کر حملہ کرنا تھا، دشمن پر کامیاب حملے کے بعد جب واپس کیمپ پہنچے تو ان کا پیر مزید خراب ہوچکا تھا، دوستوں کے آرام کے مشورے کے باوجود بھی وہ پنجگور شہر جاکر شہری گوریلوں کے ساتھ کام کرنا چاہتے تھے، علاقائی کمانڈر نے ان کے پیر کی حالت دیکھتے ہوئے ان کی شہر جانے کی درخواست مسترد کردی لیکن ثنا ضد پر اڑے رہے، انہوں نے اپنے علاقائی کمانڈر کے سامنے شہر میں اپنے اہداف کی تفصیل رکھی اور انہیں سرانجام دینے کیلئے اپنی حمکت عملی واضح کی جس سے متاثر ہو کر انہیں شہر جاکر گوریلا کاروائیاں کرنے کی اجازت مل گئی، ثنا بہار کئی مہینوں تک پنجگور شہر میں ہی موجود رہے، ان کی شکل و صورت اور کام سے کئی لوگ واقف تھے اس لئے وہ انتہائی محتاط رہ کر کام کرتے تاکہ جاننے والوں کی نظر میں نہ آسکیں اور دشمن کے ہاتھوں ممکنہ گرفتاری سے بچ سکیں، ثنا نے اس دوران بی ایل اے کیلئے کئی اہم فوجی خدمات سر انجام دیے،

ثنا ابھی شہر میں ہی تھے کہ بی ایل اے کے نام نہاد ہائی کمان کی طرف سے استاد اسلم جیسے اہم رہنما کو معطل کرنے کا اعلان سامنے آیا، استاد اسلم جیسے قابل و لائق رہنما کو راستے سے ہٹانے کی کوششوں سے وہ انتہائی مایوس ہوئے اور بی ایل اے کو چھوڑ کر واپس بی آر اے کا حصہ بنے۔

اس دوران ان کے پیر کا موچ انتہائی خراب ہو چکا تھا، انہیں شہر لے جانے کا بندوست کیا گیا جہاں وہ کئی مہینوں تک زیر علاج رہے، ان کے پیر کا دو بار آپریشن ہوا،ڈاکٹروں کے مطابق انہیں مکمل ٹھیک ہونے کیلئے مہینوں کے آرام کی ضرورت تھی اس لئے تنظیمی ساتھیوں نے انہیں واپس محاذ پر جانے سے منع کر رکھا تھا لیکن ثنا کو آرام کی زندگی راس نہ آئی اور وہ واپس محاذ کی طرف لوٹے اور مکران کے کئی محاذوں پر خدمات سر انجام دیتے رہے۔

بی آر اے کی از سر نو تنظیم سازی اور براس کے آپریشنز میں اہم کردار

2017 کئی معائنوں سے بلوچ قومی تحریک کی حالیہ لہر میں اہمیت کی حامل ہے، اسی سال جنرل اسلم کی قیادت میں بی ایل اے کے پورے ڈھانچے کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ اصولوں پر استوار کیا گیا، براس جیسے اہم فوجی اتحاد کی داغ بیل ڈالی گئی جو ماضی کے برعکس بعد میں ادارتی شکل میں ابھر کر سامنے آئی اور اسی سال جنرل اسلم کی کوششوں سے بی ایل اے اور یو بی اے کی آپسی لڑائی کا پرامن تصفیہ بھی ہوا۔

بلوچ آزادی پسند سیاست میں یہ تمام اقدامات انقلابی ثابت ہوئے جن سے نہ صرف بلوچ عوام کا تحریک کی کامیابی پر یقین پختہ ہوا بلکہ ان انقلابی اقدامات نے تحریک سے جڑے ہوئے باقی تمام فریقین پر گہرے اثرات بھی مرتب کئے، بی آر اے میں نچھلی سطح پے ناقص تنظیمی ڈھانچے کو لیکر آوازیں اٹھنی شروع ہوئیں، سیاسی شعور سے لیس علاقائی ذمہ داروں اور ان کے ماتحت سپاہیوں نے بدلے حالات کے ساتھ تنظیم کے کام کرنے کے طریقہ کار کو بدلنے کیلئے زور دینا شروع کیا۔ لیکن تبدیلی سے خائف بی آر اے کے نام نہاد ہائی کمان نے ان تمام تنظیمی رہنماؤں، کمانڈروں اور سپاہیوں کو دبانے کی کوششیں تیز کردی جو تنظیمی ڈھانچے اور حکمت عملی میں ضروری تبدیلی کے خواہاں تھے لیکن ہوا اس کا الٹ۔ تنظیمی ساتھیوں کی اکثریت نے گلزار امام کو تنظیم کا نیا ذمہ دار منتخب کیا جنہوں نے بی آر اے کو شخصی اجارادای کے چنگل سے نکال کر تنظیم کو ادارہ جاتی اصولوں پر استوار کرتے ہوئے تنظیمی ڈھانچے میں نئی اور بنیادی تبدیلیاں لائیں۔
استاد ثنا بہار اس پورے عمل میں متحرک رہے، وہ تنظیمی سربراہ گلزار امام کے انتہائی نزدیک سمجھے جانے والے لوگوں میں شامل تھے۔
ان کی بہادری، قابلیت، مخلصی اور جنگی جذبہ کو دیکھتے ہوئے انہیں جلد ہی تنظیم کی جانب ریجنل کمانڈر کی ذمہ داریاں سونپی گئی جن پر وہ کھرے بھی اترے۔

جنگجووں کے آپسی اختلافات ہوں یا دیگر علاقائی مسائل وہ ان کے ممکنہ حل کیلئے کوششوں میں مصروف رہتے جبکہ دوسری طرف قابض افواج پر حملوں کیلئے دوستوں کو منظم کرنے اور ان کی رہنمائی کیلئے بھی پیش پیش رہتے۔ اس کے علاوہ وہ شہری گوریلا کارروائیوں کیلئے نئے ساتھیوں کی بھرتی سے لیکر انہیں ضروری فوجی تربیت دیتے اور انہیں حملوں کیلئے تیار کرتے ۔

ثنا کے ایک نزدیکی دوست کے مطابق پنجگور شہر میں تیز ہوتی گوریلا کارروائیوں کے بعد آئی ایس آئی نے ثنا بہار اور ان کے چند نزدیکی ساتھیوں کو ان حملوں کا ماسٹر مائنڈ قرار دیتے ہوئے اپنے مقامی گماشتوں کو ثنا کو راستے سے ہٹانے کا خصوصی ٹاسک بھی دے رکھا تھا پر ان کے مطابق جب ثنا کو یہ خبر پہنچی تو وہ ہنستے ہوئے بولے کہ اگر ایسا ہے تو اب سے میں دوگنا زیادہ محنت سے کام کروں گا تاکہ دشمن اور بھی زیادہ پریشان اور بے بس ہو۔

اس کے علاوہ وہ چار جماعتی فوجی اتحاد “براس” کے فوجی آپریشنوں کی تیاری اور انہیں کامیابی کے ساتھ انجام دینے میں بھی پیش پیش رہے، ان حملوں میں ضلع واشک، پنجگور اور گوادر کے حملے شامل ہیں ، گوادر میں او جی ڈی ایل کے کے عملے کی سکیورٹی پر مامور فوجی قافلے پر حملے میں وہ نہ صرف شامل رہے بلکہ حملے کے دوران بنائی گئی ویڈیو میں انہیں دشمن فوجیوں پر گولیاں برساتے ہوئے انتہائی دیدہ دلیری کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے، اسی طرح ان کے ایک دوست جو کئی فوجی معرکوں میں ثنا کے ساتھ ساتھ لڑتے رہے ہیں بتاتے ہیں کہ ضلع واشک کے علاقے راغے میں جب چار جماعتی اتحاد “براس” نے کلرینس آپریشن کا آغاز کیا تو ثنا نہ صرف پہلے صف میں بیٹھے بڑی بہادری سے لڑے بلکہ پورے آپریشن کے دوران الگ الگ مورچوں میں لڑ رہے گوریلوں کے درمیان رابطوں اور دوران جنگ بدلتے صورتحال کے مطابق ان کو ہدایات بھی دیتے رہے ۔

ایک ایسے ہی واقعے کا ذکر کرتے ہوئے ایک اور دوست کہتے ہیں کہ ایک بار ریاستی ڈیتھ اسکواڈ کے کارندوں کے ایک ٹھکانہ پر چھاپے کا منصوبہ بنایا گیا جس کی منصوبہ بندی اور حملے کی سربراہی بھی خود ثنا بہار نے کی ہوئی تھی، حملہ کامیابی کے ساتھ مکمل ہوا لیکن دشمن کا ایک کارندہ زخمی حالت میں اب بھی دوستوں پر گولیاں برسا رہا تھا، ثنا حملے کے مقام سے تھوڑے ہی فاصلے پر سڑک کی نگرانی پر مامور تھے، جب انہیں واکی ٹاکی پر صورتحال سے آگاہ کیا گیا تو وہ بڑی تیز رفتاری کے ساتھ وہاں گئے اور خود حملے کی کمان سنبھالتے ہوئے دشمن کو مار کر ان کا اسلحہ ضبط کر کے واپس آئے۔

آخری معرکہ:

دسمبر میں کیلکور کا موسم خاصا سرد رہتا ہے، کیلکور میں یہ موسم یخ بستہ اور خشک ہواؤں کا موسم ہوتا ہے، سیاہ لک جہاں استاد ثنا بہار اپنے دوستوں کے ہمراہ کیمپ کئے ہوئے تھے کیلکور کے شمالی پہاڑی سلسلے کو کہا جاتا ہے، ان پہاڑوں میں چلنے والی سب سے بڑی ندی کا نام بھی سیاہ لک ہے جو آگے چل کر کئی دوسرے پہاڑی ندیوں سے مل کر دریا کی شکل اختیار کرتی ہے جو دریائے کیلکور کہلاتی جو پورے سال بہتی ہی رہتی ہے اور آگے چل کر دریائے گیشکور کے سنگم کے بعد کیچ کور کہلاتی ہے۔

دشمن پر حملوں کیلئے صبح کا وقت ہمیشہ سے موزوں سمجھا جاتا رہا ہے کیونکہ اس وقت نیند دشمن سپاہیوں پر حاوی رہتی ہے اور جو فریق پہلے حملہ کرتا ہے وہ ہر طرح سے فائدے میں رہتا ہے کیونکہ وہ مخالف فریق کے نسبت ذہنی حوالے سے لڑنے کیلئے بہتر تیار ہوتا ہے، لڑنے کیلئے آگے پورا دن رہتا ہے اس لئے مخالف کو نقصان کے زیادہ خدشات ہوتے ہیں۔

گوریلے ایسے خدشات سے بخوبی آگاہ رہتے ہیں اس لئے وہ طلوع آفتاب سے پہلے ہی نید سے بیدار ہوتے ہیں، اپنی بندوق اور پانی کی بوتل اپنے بگل میں رکھتے ہیں، تاریکی میں آگ جلانے سے اجتناب کرتے ہیں اس طرح وہ ممکنہ حملوں کا موثر جواب دینے کیلئے تیار رہتے ہیں۔

سیاہ لک کیمپ میں اس دن بھی یہی ہوا، ثنا اور اس کے ساتھی طلوع آفتاب سے پہلے بیدار ہوئے اور طلوعِ آفتاب کے بعد سیاہ چائے کی چسکیوں کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ شغل و مزاح میں مصروف تھے۔ رات کو دو گوریلے وہاں موجود سب سے اونچی پہاڑی چوٹی پے پہرے دیتے رہے تھے اب انہیں نیچھے اترنا تھا اور دو اور کو ان کی جگہ سنبھالنے کیلئے جانا تھا لیکن اس سے پہلے پہرے پے بیٹھے گوریلوں کی نظریں کیمپ سے بہت دور گوارگو کے میدان سے اٹھنے والی آگ پر پڑی، دوربین سے دیکھنے پر پتہ چلا کہ دشمن ایک بستی میں جھونپڑیوں کو آگ لگانے کے بعد کیمپ کی طرف پیشقدمی کر رہی ہے، پہرے پے بیٹھے دوستوں نے وائر لیس سے استاد ثنا بہار کو صورتحال سے آگاہ کیا۔

ثنا نے کیمپ میں موجود تمام دوستوں کو یکجاہ کیا اور احکامات دئیے کہ اپنی بندوقیں صاف کرلیں، بوتلوں میں پانی بھر لیں، حملے میں پہل ہم کریں گے۔

ثنا علاقے سے اچھی طرح سے واقف تھے انہوں نے جلد ہی دوستوں کو مختلف ٹیمز میں تقسیم کیا، ان کو ان کے مورچوں اور ذمہ داریوں سے آگاہ کیا اور کیمپ سے حملے کی جگہ کیلئے نکلے۔

دشمن پیشگی حملے سے بے نیاز پیشقدمی کررہا تھا کہ اچانک ثنا اور ان کے ساتھی ان پر حملہ آور ہوئے ،اچانک اور شدید حملے کے بعد دشمن کیلئے جوابی کارروائی ممکن نہیں تھا اور وہ چند منٹوں میں ہی ڈھیر ہو گئے، پچھے بیٹھے دوستوں نے وائرلیس سے ثنا کو آگاہ کیا کہ دشمن کی مذید نفری حملے کی جگہ کی جانب آ رہی ہے، یہ شاید پہلا اسکواڈ تھا جو سب سے آگے چل رہا تھا باقی کے اسکواڈ وہاں سے تھوڑے سے فاصلے پر آگے کی جانب پیشقدمی کر رہے تھے۔

ثنا نے فیصلہ کیا کہ کچھ دوست یہیں پے بیٹھے کور فائر دیں گے اور وہ چند ساتھیوں کے ہمراہ ہلاک ہونے والے دشمن اہلکاروں کا اسلحہ ضبط کرنے کیلئے آگے جائیں گے، ثنا اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ تھوڑا آگے گئے ہی تھے کہ مخالف سمت سے ایک سپائی جو زخمی حالت میں چٹانوں کی کور لئے ہوئے تھا نے ان پر فائر کھول دیا، ثنا کو ایک گولی پیر کے نچھلے حصہ پر لگی، لیکن چونکہ گولی محض گوشت کو چھو کر نکلی تھی اسلئے گھاؤ اتنا گہرا نہیں تھا۔ ثنا اور اس کے ساتھی ایک دوسرے کو کور فائر دیتے ہوئے آگے جاتے رہے، ثنا جلد ہی زخمی اہلکار کو مار کر دشمن کا اسلحہ وغیرہ ضبط کر کے واپس آنا چاہتے تھے لیکن اتنے میں فضا گن شپ ہیلی کاپٹروں کی آوازوں سے تھرتھرانے لگی،گن شپ ہیلی کاپٹر کچھ ہی لمحوں میں جھڑپ کی جگہ پر پہنچ گئے اور ثنا اور ان کے ساتھیوں پر شیلنگ شروع کردی لیکن ثنا اور اس کے ساتھی سنائپرز، ایل ایم جی اور آر پی جی جیسے ہتھیاروں سے لیس تھے جو چھوٹے پیمانے کے کسی بھی فضائی حملے کو پسپا کرنے کیلئے کافی تھے، انہوں نے آنے والے جنگی جہازوں پر جوابی حملہ کیا اور انہیں پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا۔

جنگ کا منظر بدل گیا تھا اور ثنا یہ جان گئے تھے کہ اب مذید حالات ان کے حق میں نہیں ہیں ، ثنا نے اپنے ساتھیوں کو پیچھے ہٹنے کا حکم دیا، وہ جھڑپ کی جگہ سے تھوڑے ہی فاصلے پر پہنچے تھے کہ ایک بار پھر دشمن کے ہیلی کاپٹر ان کے تعاقب میں پہنچے۔

اس بار انہوں نے شیلنگ نہیں کی بلکہ تھوڑے ہی فاصلے پر ایس ایس جی کمانڈوز کو زمین پر اتارا، ثنا نے دوستوں کو مورچے سنبھالنے کا حکم دیا۔ ایک بار پھر شدید جھڑپ شروع ہوئی جو گھنٹوں چلتی رہی اس بیچ دشمن کی مذید نفری مزکورہ جگہ پر پہنچی، استاد ثنا بہار اور ان کے ساتھی ایک دوسرے کو کور فائر دیتے ہوئے پیچھے ہٹتے رہے تاکہ دشمن کے گھیرے سے نکل سکیں لیکن اس بیچ استاد ثنا بہار کو ایک اور گولی لگی جو اس بار پیر کی ہڈی کو لگی جس سے ثنا کیلئے مذید چلنا ممکن نہیں رہا، انہوں نے رینگتے ہوئے اپنی پوزیشن تبدیل کی اور مورچہ سنبھالتے ہوئے دشمن اہلکاروں پر واپس گولیاں برسانا شروع کیا، اس کے بعد انہیں ایک اور گولی لگی جس کے ساتھ ہی انہوں نے بحیثیت کمانڈر اپنا آخری حکم دیا، انہوں نے ساتھیوں کو کہا کہ میرا نکلنا اب ممکن نہیں ہے تم لوگ یہاں سے نکلو تب تک میں انہیں روکے رکھتا ہوں، دوستوں کے نکلنے سے انکار کے بعد انہوں نے زور دے کر کہا کہ یہ کوئی مشورہ نہیں بلکہ میرا حکم ہے جس کے بعد باقی ساتھی پیچھے ہٹے اور استاد ثنا بہار اکیلے میدان جنگ میں ڈٹے رہے اور لڑتے ہوئے شہید ہوئے اور اسطرح استاد ثنا بہار کی آٹھ سالہ جدوجہد اپنے اختتام کو پہنچا، ثنا کی آنکھیں آزاد وطن کے خواب لئے ہمیشہ کیلئے بند ہوگئیں، اب کے بلوچستان کے پہاڑوں میں موجود گوریلا کیمپوں میں ان کی ہنسی کی گونج نہیں ہوگی ، اب کے کیلکور و گچک کے کھیت کھلیانوں میں اس کے قدموں کے نقش بھی نظر نہ آئیں گے۔ وہ بہادر سپاہی، دلیری کی اعلیٰ مثال وہ بہترین رہنما و دوست، وہ نوجوان جنگی کمانڈر اب کے اپنی دھرتی ماں کے آغوش میں ابدی نیند سو رہا لیکن اس کا فکر اب بھی زندہ ہے، اس کے خوابوں کی آبیاری کیلئے اس کے یار دوست اس کے ہم خیال اب بھی بلوچستان کے بلند و بالا پہاڑوں پے مورچہ زن ہیں، استاد ثنا بہار کی جنگ اب بھی جاری ہے جو تب تک جاری رہے گی جب تک کہ دشمن کو ثنا کی دھرتی سے کھدیڑا نہ جائے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔