کوئٹہ: طلباء کی جبری گمشدگی، بلوچستان یونیورسٹی آج سے دوبارہ احتجاجاً بند

208

بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ میں بلوچستان یونیورسٹی سے دو بلوچ طالب علموں کی جبری گمشدگی کے معاملے پر حکومت بلوچستان اور طلباء کے درمیان مزاکرات ناکامی کے شکار ہوگئے، آج ایک بار پھر بلوچستان یونیورسٹی میں تعلیمی سرگرمیاں معطل رہے گی –

خیال رہے کہ بلوچستان یونیورسٹی سے لاپتہ دو طالب علموں کے ساتھیوں نے صوبائی حکومت کی مذاکراتی کمیٹی کو چار دن کا وقت دیتے ہوئے یونیورسٹی کے مرکزی دروازے کی بندش اور تعلیمی سرگرمیوں کے بائیکاٹ کی کال واپس لیا تھا –

دونوں طالب علم سہیل بلوچ اور فصیح اللہ یکم نومبر کو بلوچستان یونیورسٹی سے لاپتہ ہو گئے تھے، جس کے بعد طلبا تنظیموں نے احتجاج کا اعلان کرتے ہوئے یونیورسٹی کو تمام سرگرمیوں کے لئے بند کردیا تھا –

طلباء کی جبری گمشدگی کے خلاف کوئٹہ کے دیگر تعلیمی اداروں میں بھی احتجاج کیا گیا۔

یونیورسٹی کے احاطے میں دھرنا دینے والے طلبہ سے گذشتہ ہفتے حکومتی پارلیمانی کمیٹی کے وفد میں شامل تین ارکان عبدالرحمٰن کھیتران، ملک نصیر شہوانی اور احمد نواز نے ملاقات کرکے انہیں طلبا کی بازیابی کے لیے یقین دہانی کرائی تھی-

تاہم گذشتہ روز بلوچستان یونیورسٹی کے احاطے میں طلباء تنظیموں کے قیادت نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے آج ایک بار بلوچستان یونیورسٹی کو بند کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اگر دنوں طالب علم مجرم ہیں تو انہیں قانون کے تحت عدالتوں میں پیش کرکے سزا دی جائے –

انہوں نے کہا کہ چار دن پہلے حکومتی وفد نے آکر ہم سے مزاکرات کیے اور ہم نے اپنا موقف انکے سامنے رکھا -لیکن حکومتی وفد اپنے معاہدے میں ناکام رہا –

انہوں نے کہا کہ آج یونیورسٹی رجسٹرڈ کی بیان نے یہ ثابت کردیا کہ یہاں ایک قوت آئین کو کچل رہا ہے –

بلوچستان یونیورسٹی کے ایک پروفیسر حامد علی بلوچ نے کہا تھا کہ ‏وزیر اعلیٰ بلوچستان کی طرف سے بنائی گئی تین رکنی کمیٹی نے سہیل بلوچ اور فصیح بلوچ کو رواں ہفتے کے منگل تک رہائی کا یقین دہانی کرائی تھی –

دوسری جانب سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ایک بار پھر طلباء تنظیموں کے رہنماؤں نے حکومتی وفد مزاکراتی کمیٹی کی ناکامی پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ تعلیمی اداروں سے طلباء کی جبری گمشدگیوں پر حکومتی بے بسی قابل مذمت ہے –