شہید طارق مری عرف ناصر بلوچ . تحریر: اشنام بلوچ

483

شہید طارق مری عرف ناصر بلوچ

تحریر:اشنام بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

کسی شخص کے ساتھ رفاقت کو ہمیشہ کےلئے قائم رکھنا ہمارے بس میں نہیں ہے لیکن ان کے خوابوں، سوچ اور نظریہ کو زندہ رکھنا ہمارے بس میں ہے۔ ان کے خوابوں کی تعبیر اس وقت ممکن ہوسکے گی جب ہم ان کے راستے پر چل کر ، ان کی سوچ و فکر اور نظریہ کو اپنا کر، اپنی قومی زمہ داریوں کا احساس کرکے ان کے خوابوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کریں۔

شعور و فکر اور قومی آزادی کے نظریہ سے لیس ایک ایسا شخص شہید طارق مری عرف ناصر تھا جس نے آنیوالی نسلوں کےلئے ایک خوشحال معاشرہ اور آزاد وطن کی قیام کا خواب آنکھوں میں لئے 4 سال سے زائد عرصے تک بولان و ہرنائی سمیت مختلف محازوں پر مزاحمت کا علم بلند کرکے قابض پنجابی دشمن کے خلاف برسرپیکار رہا۔

شہہد طارق مری عرف ناصر بلوچ قومی تحریک آزادی کا ایک جانباز سپاہی اور بہادر جنگجو تھا جو گذشتہ ماہ 23 اکتوبر کو جنترو کے علاقے میں اپنے 3 ساتھیوں سمیت قابض دشمن کے خلاف بہادری سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کرگیا۔

23 اکتوبر کے دن جب سوشل میڈیا پر بولان میں 6 دوستوں کی شہادت کی غیر مصدقہ خبریں آنے لگیں تو یہ سوچ کر دل بیٹھ سا جار ہا تھا کہ نجانے کون کون سے سنگت وطن کی عشق اور آزادی کی چاہ میں نثار ہوگئے ہیں ۔

26اکتوبر کو بی ایل اے ترجمان جیئند بلوچ کا سوشل میڈیا پر بیان نشر ہوا جس میں تنظیم کے 4 دوستوں بولان ریجن کے اسپیشل ٹیکٹیکل اسکواڈ کے کمانڈر سنگت طارق مری عرف ناصر ، سنگت محمد حسین مری عرف جبل، سنگت بختار سمالانی عرف یوسف اور سنگت سیف اللہ زہری عرف سہراب کے شہادت کی خبر تھی ۔اور ساتھ ساتھ بقایا دونوں شہداء جمعہ خان اور محمود کے بارے میں لکھا تھا کہ وہ مقامی مالدار (بھاگیا) تھے جن کو دشمن نے اغوا اور قتل کرنے کے بعد انکی میتیں مذکورہ علاقے میں پھینک کر انھیں بی ایل اے سرمچار ظاہر کرنے کی کوشش کی تھی۔

بی ایل اے کے ترجمان کے بیان میں دیگر شہدا کے ساتھ شہید طارق مری عرف ناصر کا نام دیکھ کر دل میں ایک ٹھیس سی اٹھی کیونکہ مجھے یہ خوشبختی حاصل رہی تھی، میں نے شہید طارق عرف ناصر کو قریب سے دیکھا تھا اور اسکی سنگتی میں چند وقت گزارا تھا ۔

یقیناً شہادتوں سے قومی تحریک کمزور نہیں بلکہ مزید مظبوط ہوگی اور شہادتیں جنگ کا حصہ ہیں ۔ بغیر خون بہائے منزل کو پانے کا تصور بھی ناممکن ہے لیکن شہید ناصر جیسے مخلص اور بلند حوصلوں کے مالک جہدکار سنگت کا جلدی سے نعم البدل پانا بھی مشکل ہے ۔

شہید ناصر جیسے جہدکار کے عظیم اور مخلصانہ کردار کو بیان کرنا میرے بس کی بات نہیں اور نہ ہی میں کوئی لکھاری ہوں کہ اس کے کردار کو خوبصورت الفاظ میں سمو کر آپ کے سامنے پیش کرسکوں۔ بس کچھ یادیں ہیں جو اس کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں، جن کو میں اپنے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں قلم بند کرنے کی کوشش کررہا ہوں ۔

قومی سوچ وفکر اور نظریئے پر مظبوطی سے کاربند، دراز قد و کاٹ کے مالک خوبصورت ہنس مکھ چہرہ ،سر پر لمبی گھنی بال پیچھے باندھ کر خوبصورت شان کے ساتھ چلنے والا نوجوان طارق مری عرف ناصر جان ایک انمول ساتھی تھا جس نے قومی آذادی کا پختہ عزم لیکر ہرنائی و بولان اور کاہان کے محاز پر اپنے قومی فرائض کو ہمیشہ مخلصی سے سرانجام دیتا رہا، دشمن نے ناصر جان کو توڑنے اور اسکی سوچ کو متزلزل کرنے کےلئے اسکے خاندان کو بھی اپنے جبر کا نشانہ بنایا لیکن ناصر مظبوطی سے آخری سانس اور آخری گولی تک ڈٹا رہا اور اپنی بیش بہا قیمتی زندگی کو مادرِ وطن پر نچھاور کرکے خود کو ہمیشہ ہمیشہ کےلئے امر کردیا۔

ناصرجان جیسے جفا کش و خواری کش دلیر فرزندوں کے عزم و ہمت اور حوصلے کو دیکھ کر میرا یقین اور پختہ ہوجاتا ہے کہ شکست و رسوائی قابض دشمن کی ایک دن ضرور مقدر بنےگی، کیونکہ بلوچ نوجوانوں نے اپنے مادر وطن کی آزادی اور اپنے قومی وقار کے سربلندی کےلئے مرنے کا ہنر سیکھ لیا ہے اور جو قومیں اپنی بقاء کےلئے مرنے کا ہنر سیکھ لیتے ہیں پھر انھیں دنیا کی کوئی بھی طاقت زیر نہیں کرسکتا۔

شہید ناصر سے میری پہلی ملاقات اس وقت ہوئی جب مئ 2017 میں، میں دوستوں سے ملنےبولان گیا تھا۔ اس سفر کے دوران ایک راہ بلد بھی میرے ہمراہ تھا۔ ہم نے اپنے سفر کا آغاز صبح 8 بجے شروع کیا اور رات 10 بجے کے قریب دوستوں کے پاس کیمپ میں پہنچ گئے۔ جب ہم وہاں پہنچے تو دوستوں نے کھانا تیار کیا ہوا تھا اور ہمارا انتظار کر رہے تھے ۔ ان میں سے ایک ناصر بھی تھا جو اس وقت وہاں کیمپ میں موجود تھا۔

زندگی میں پہلی بار کسی پہاڑی علاقے میں طویل پیدل سفر، گرم موسم، پیاس اور راستے کے نشیب و فراز بڑے پتھروں پر چڑھنے اترنے کی وجہ سے میری حالت بری ہوگئی تھی، پاؤں اور جسم میں شدید درد ہورہا تھا اور میں بے حد تھکا ہوا تھا۔ دوستوں نے کھانا لایا اور ہم نے کھانا کھا لیا اس کے بعد سب دوست سونے چلے گئے ۔ ایک دوست جسکو میں پہلے سے جانتا تھا مجھے درد و تھکن رفع کرنیوالے کچھ گولیاں دیں ۔ تھوڑی دیر بیٹھ کر مجلس کرنے بعد دوست نے کہا آپ کافی تھک گئے ہو آرام کریں کل صبح آپ سے تسلی سے ملاقات ہوگی ۔ یہ کہہ کر وہ اپنے بستر پر سونے چلا گیا۔ میری بھی تھکن کی وجہ سے جلدی آنکھ لگ گئی اور میں نیند کے آغوش میں چلا گیا۔

صبح جب نیند سے بیدار ہوا تو دیکھا کیمپ کے سارے دوست کیٹلی کے اردگرد بیٹھ کر چائے پی رہے ہیں ، میں بھی اپنے بستر سے اٹھ کر ہاتھ منہ دھو کرجاکر ان کے پاس بیٹھ گیا۔ رات کو تھکاوٹ کی وجہ سے چونکہ دوستوں کے ساتھ اچھی طرح سے حال احوال نہ ہوسکا تھا اور اب میں تازہ دم ہوگیا تھا اس لئے ایک بار پھر سے ان کے ساتھ باری باری جوڑ بڑھ کرنے لگا ۔ شہید ناصر بھی وہاں بیٹھا تھا اور اسکے چہرے پر بھی ایک خوبصورت سی مسکراہٹ سجی ہوئی تھی ۔ اس کے بعد تقریبا ایک مہینے تک میں وہاں دوستوں کے ساتھ کیمپ میں رہا اور ہر روز شہید ناصر کو اپنے ذمے میں آنیوالے کام کاج کو مخلصی سے ادا کرتے ہوئے دیکھتا۔

اس کے بعد دوسری دفعہ پھر سے 2019 میں ایک کام کے سلسلے میں مجھے بولان جانا پڑا تو ایک دوست نے مجھے شہید ناصر کا واٹس ایپ نمبر دیا اور کہا اس دوست سے رابطہ کرلینا وہ تمہیں سنبھال لے گا کب اور کہاں کس جگہے پر پہنچنا ہے وہ سب کچھ تمہیں بتا دیگا ۔ میں نے نمبر لیکر اس دوست کو میسج کیا تو کچھ دیر بعد مجھے ایک وائس میسج موصول ہوا جس کی آواز مجھے جانا پہچانا لگا اور فوری میرے زہن میں شہید ناصر کا چہرہ اور خدو خال آگئے ۔ اس بار میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا ایک بار پھر سے شہید ناصر کے ساتھ میری ملاقات ہوگی۔ پھر اس نے مجھے ایک جگہے پر پہنچنے کا پتہ دیا ۔

میں نے اپنے سفر کی تیاریاں مکمل کرکے اگلے دن نکل گیا اور دوپہر سے پہلے مطلوبہ مقام پر پہنچ گیا ۔ وہاں سے مجھے لینے ایک راہ بلد آیا اور تھوڑا ساتھ لیکر چلنے کے بعد مجھے آگے کا راستہ سمجھایا اور کہا کہ تمہارے دوست انتظار کررہے ہیں جلد از جلد اس جگہے پر پہنچنے کی کوشش کرو۔ اس کے بعد میں نے اپنا سفر شروع کیا اور کافی دیر تک پہاڑوں کے بیچ چلتا رہا ۔ اب عصر کا وقت ہونے لگا تھا اور سورج کی روشنی آہستہ آہستہ مدہم پڑتی جارہی تھی۔ ہر طرف چھائی سکوت کو وہاں بہنے والی اک ندی کا شور توڑ رہا تھا۔ مطلوبہ جگہ پر پہنچ کر وہاں دوستوں کو نہ پاکر میں تھوڑا سا پریشان ہونے لگا کیونکہ دن تیزی سے ڈھل رہا تھا اور مجھے کیمپ تک جانے کا راستہ معلوم نہیں تھا۔

اب میں بہتے ندی کے بہاؤ کے ساتھ اسی سمت قدم بڑھانے لگا کہ شاید آگے دوست مل جائیں ۔تھوڑی دیر ٹہلنے کے بعد دور سے اسی بہتی ندی کے بیچ میں مجھے ایک بڑھے سے پتھر کے اوپر کوئی چیز رکھا ہوا نظر آیا ۔ جب میں اس پتھر کے قریب پہنچ گیا تو دیکھا اُس پر ایک دوست نے اپنا جاٹہ رکھا ہوا ہے۔ تب جاکر میرے کو دل تسلی مل گیا کہ دوست ضرور یہیں کہیں پر موجود ہیں۔ چند قدم بڑھا کر میں بھی اُس پتھر کے اوپر جاکر بیٹھ گیا جس پر جاٹہ رکھا ہوا تھا۔ اسی اثناء میں دیکھا دور سے ایک دراز قد شخص اپنے ایک اور ساتھی کے ساتھ میری طرف قدم بڑھاتا آرہا ہے ۔ جب وہ دونوں قریب پہنچ گئے تو میری نظروں نے شہید ناصر کو فوراً پہچان لیا اور اس نے بھی مجھے دوبارہ دیکھ کر اپنے چہرے پر ایک خوبصورت مسکراہٹ سجالی۔ شہید ناصر نے اپنا جاٹہ بطور چیدہ وہاں رکھا تھا تاکہ میں راستہ بھٹک کر یا مزید آگے کی طرف نکل نا جاؤں۔

وہ خود اپنے ایک ساتھی کے ساتھ راستے کا جائزہ لینے وہاں قریبی پہاڑ کے تھوڑا سا اوپر ایک پتھر کے اوٹ میں بیٹھا میرا راہ تک رہا تھا۔ شہید ناصر اور دوسرے ساتھی کے ساتھ بغل گیر ہونے کے بعد اُس نے وہاں رکھا اپنا جاٹہ اٹھایا اور ہم کیمپ کی طرف قدم بڑھانے لگے۔

رات 7 سے 8 بجے کے درمیان ہم کیمپ پہنچ گئے دوستوں نے چائے پیش کی۔ تھوڑی دیر بعد کھانا لائے کھانا کھانے کے بعد سب دوست اپنے اپنے جگہوں پر سونے چلے گئے ماسوائے کیمپ کمانڈر کے جو میرے ساتھ بیٹھ کر مجلس کررہا تھا ۔ اس نے مجھے اپنا بڑا سا بلوچی چادر دیکر سونے چلا گیا ۔ چند لمحوں بعد دیکھا شہید ناصر آرہا ہے اس کے ایک ہاتھ میں ایک مچھردانی اور دوسرے ہاتھ میں ایک کمبل تھا ۔ اس نے مجھے اپنا بستر اور مچھردانی پیش کیا اور کہا یہاں مچھر بہت کاٹتے ہیں آپ اس مچھر دانی میں سوجائیں ۔ میں نے لینے سے منع کردیا اور کہا آپ تکلیف مت اٹھائیں میں اس چادر میں سوکر گزارہ کرلونگا۔ اس نے کہا میں ایک اور دوست کے ساتھ اس کے مچھر دانی میں سوجاؤنگا آج آپ ہمارے مہمان ہیں اور تھکے ہوئے بھی ہو اس لئے آج آپ کا آرام سے سونا ضروری ہے۔ میں نے اس سے مچھر دانی اور بستر لیکر اسکا شکریہ ادا کیا اور وہ اپنے جگہے پر سونے چلاگیا۔

اس کے بعد تقریباً دو مہینوں تک میں شہید ناصر اور دوستوں کے ساتھ رہا ۔ شہید ناصر کو میں نے ہر وقت ایک سنجیدہ اور زمہ دار جہد کار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک خوش مزاج انسان پایا جو ہر وقت ہنسی مزاق کے موڈ میں ہوتا تھا۔ اپنے ذمے آنیوالے کیمپ کے چھوٹے موٹے کام کاج سے لیکر ہر بڑے تنظیمی زمہ داری کو ہمیشہ وہ خوش اسلوبی کے ساتھ بخوبی نبھاتا تھا ۔ اس دوران شہید چاکر مری عرف پردیسی بھی میرا بہت اچھا دوست بن گیا اور میں اپنا زیادہ تر وقت ان دونوں شہداء کے ساتھ گذارتا۔

ایک دفعہ ایک سفر کے دوران رات کو ہمارا پڑاؤ اسی جنترو کے مقام پر ہوا جہاں وہ اپنے دوستوں سمیت جھڑپ میں شہید ہوگئے ۔میں شہید ناصر اور چاکر مری رات دیر تک بیٹھ کر گپ شپ اور ہنسی مزاق کرتے رہے۔ اس کے بعد جب میں سونے کےلئے اپنے بستر پر چلا گیا تو شہید ناصر نے مذاق میں کہاں سنگت خیال کرنا یہاں بہت خطرناک سانپ ہوتے ہیں مچھر دانی کو بھی پھاڑ کر اندر گھس جاتے ہیں زرا احتیاط کے ساتھ سونا ۔ اگلے دن ہم اپنا سامان باندھ کر ایک مقام کی طرف نکل گئے میرے یہ دو ماہ شہید ناصر اور دوستوں کے ساتھ اس قدر ہنسی خوشی گذریں کہ دنوں کا پتہ بھی نہ چلا ۔

چند دنوں بعد میرا واپسی تھا اور شہید ناصر کو بھی کچھ وقت کی چھٹیاں مل گئے تھے۔ ہم دونوں پھر سے سفر پر ایک ساتھ نکلے۔ اس بار ہمارے ساتھ دو اور دوست بھی تھے جن میں سے ایک کو شہید ناصر کے ساتھ جانا تھا اور دوسرے دوست کو میرے ساتھ واپس ہونا تھا ۔ چار پانچ دن تک ہم سب ایک ساتھ سفر کرتے رہے۔ چند مقامات پر گرم موسم اور دشمن کے قریبی پہاڑوں میں مورچہ زن ہونے کی وجہ سے رات کو بھی سفر کرنا پڑا۔ آخری دن بھی ہمیں رات کو اپنا سفر جاری رکھنا پڑا کیونکہ جس جگہ پر ہمیں پہنچنا تھا وہاں قریبی مقامی آبادی کے نزدیک دشمن بھی بیٹھا ہوا تھا۔ چار پانچ دن کے مسلسل سفر کی وجہ سے میرے پاؤں کے ایک گھٹنے میں شدید درد ہونے لگا تھا جس کی وجہ سے مجھے چلنے اور قدم اٹھانے میں بہت تکلیف پیش آرہی تھی۔ رات کی تاریکی میں سفر اور گھٹنے کی تکلیف اور تھکاوٹ کی وجہ سے میں بمشکل چل پا رہا تھا۔ اس دوران بھی شہید ناصر نے میری مدد کی اور میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے سہارا دیتا ہوا اپنے ساتھ لیکر جارہا تھا۔صبح کے ازان سے کچھ دیر قبل ہم مذکورہ مقام پر پہنچ کر ایک دوسرے کو الوداع کہا اور وہ اپنے منزل کی طرف گامزن ہوگئے اور ہم اپنی سمت چل پڑے۔

یہ شہید ناصر کے ساتھ میری آخری رفاقت تھی اس کے بعد اس کے ساتھ نہ کبھی بات اور نہ ملاقات ہوئی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں