سات نومبر کو کراچی پریس کلب کے سامنے احتجاجی کیمپ کا اعلان کرتے ہیں۔ بی وائی سی

194

بلوچ یکجہتی کمیٹی (کراچی) کے ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ بلوچستان میں مسئلے روز کے معمول کی طرح مختلف صورت سے سامنے آ رہے ہیں حال ہی میں آواران سے روز کے معمول کی طرح غیر انسانی و غیر آئینی عمل کے چند واقعات کے اطلاعات موصول ہوئے جو انتہائی تشویشناک خبر ہیں۔ آواران کے علاقے پیراندر کو جبراً خالی کیا جا رہا ہے اس کے واشک ٹوبہ سے تعلق رکھنے والے ایک خاندان کے بزرگ اور دو بچوں کو حال ہی میں جبری طور پر گمشدہ کیا گیا ہے جو اپنے گھر کو اپنی زمین کو چھوڑنے کے حق میں نہیں تھے جس کا خمیازہ انہیں جبری گمشدگی کے صورت میں بھگتنا پڑا۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ان دو بچوں اور ان کے بزرگ کے جبری گمشدگی کے بعد آواران کے علاقے کو جبراً خالی کیا جا رہا ہے جس کا جواز سیکیورٹی خدشات بتایا جا رہا۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ ہم سیکیورٹی اور تحفظات کے خلاف ہرگز نہیں لیکن سیکیورٹی کے نام پر وہاں کے برسوں کے رہائشیوں کو اپنی ہی سرزمین سے جبراً نقل مکانی کرنے پر مجبور کرنا اور جو اس امر کے خلاف ہوجائے ان کے بچوں اور بزرگ کو جبری گمشدگی کا شکار بنانا صاف طور پر غیر اخلاقی غیر انسانی و غیر آئینی عمل ہے جس کی ہم صاف الفاظ میں ممانعت کرتے ہیں۔ آواران کے لوگوں کو جبری گمشدگی کا شکار بناکر ان کے صدیوں پرانے آباؤاجداد کے بنائے ہوئے گھروں سے ان کو بے گھر کرنا اور اس پر سیکیورٹی کے خدشات کا نام دینا ہم ان تمام عملوں کے سخت الفاظ میں انکاری ہیں۔ ہم اس طرح کی سیکیورٹی کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔

ترجمان نے کہا کہ بلوچ نوجوان سہیل بلوچ کے شہید کرنے کی نسبت سے کہنا تھا کہ آئے روز سہیل بلوچ جیسے با ضمیر بلوچ نوجوانوں کو قتل کرکے بلوچ قوم کے جدوجہد کو روکنے اور ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ سہیل بلوچ کا جرم فقط یہ تھا کہ وہ سوال کرتا تھا اس نظام کے خلاف، وہ سوال کرتا تھا جبر کے خلاف، وہ سوال کرتا تھا ظلم کے خلاف، وہ یہ سوال کرتا تھا کہ بلوچ کی تقدیر میں سوائے ظلم و جبر کے اور کچھ کیوں نہیں؟ وہ یہ سوال کرتا تھا کہ یہ دن بہ دن حالات سنورنے کے بجائے سدھر کیوں نہیں رہے ہیں؟ یہ سوال کرنا اور اس کا با ضمیر ہونا اس کے موت کی وجہ بنی اور اس طرح ڈیتھ اسکواڈ نے اس کو شہید کردیا۔

ترجمان نے اپنے بیان کے آخر میں کہا کہ ہم ان سب کو بلوچستان پر ہر روز ہونے والے ظلم و جبر سے بھی بڑھ کر سمجھتے ہیں کیونکہ یہ ہماری زمین ہے اور ہمیں ہماری ہی زمین سے کوئی نکال نہیں سکتا اور ہم عوامی طاقت کا مظاہرہ چاہتے ہیں ہم بلوچ عوام کی اکثریت کا مظاہرہ چاہتے ہیں کہ وہ اس ظلم و جبر کے خلاف یکجا ہوکر بلوچستان کی آواز بنے اور آواران کی آواز بنے کیونکہ بلوچ قوم جب تک متحد و منظم نہیں ہوگی اس کو اسی طرح سے ظلم و جبر کا شکار بنایا جائے گا اور اگر متحد نہ ہوئی تو تاریخ گواہ ہے کہ یہ معاملات اس سے بھی کئی آگے بڑھ سکتے ہیں جو کہ وقتاً فوقتاً بڑھ رہی ہیں جس کی واحد وجہ بلوچ قوم کا متحد نہیں ہونا ہے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی (کراچی) 7۔نومبر۔2021 بروزِ اتوار کراچی پریس کلب کے سامنے صبح 11 بجے سے شام 5 بجے تک احتجاجی کیمپ کا اعلان کرتی ہے اور تمام طبقہءِ ہائے زندگی کے لوگوں سے بڑی تعداد میں شرکت کی اپیل کرتی ہے۔