دیکھ رہے ہیں کہ بلوچ لاپتہ افراد باہر ممالک تو نہیں گئے ۔ وزیراعلیٰ قدوس بزنجو

629

پاکستانی نجی ٹی وی چینل کے پروگرام جرگہ میں سلیم صحافی سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ بلوچستان قدوس بزنجو نے کہا ہے کہ ہم یہ دیکھ رہے ہیں کے لاپتہ افراد کی تعداد کتنی ہے –

انہوں نے کہا کہ میڈیا پر مختلف نمبر بتائے جاتے ہیں، بی این پی مینگل کی تعداد مختلف ہیں۔ وزیر اعلی قدوس بزنجو نے کہا کہ ہوم ڈپارٹمنٹ دیکھ رہی ہے کہ لاپتہ افراد افغانستان و دیگر ممالک فرار تو نہیں ہوئے –

میزبان سلیم صحافی کے سوال پر کہ بلوچستان میں جاری لاپتہ افراد کے مسئلے پر حکومت کیا حکمت عملی اپنا رہی ہے جس پر وزیر اعلیٰ بلوچستان نے جواب دیتے ہوئے بتایا کہ ہم صحیح تعداد جمع کرنے کی کوشش کررہے ہیں –

وزیر اعلی بلوچستان کا کہنا تھا کہ ہوم ڈپارٹمنٹ صحیح تعداد کی تلاش کررہی ہے، انہوں نے دعویٰ کیا کہ لاپتہ افراد کے لسٹ میں کچھ ایسے بھی ہیں جو افغانستان سمیت دیگر ممالک میں فرار ہوگئے ہیں –

میزبان نے سوال کیا کہ آپ اس پر کوئی پاور کمیٹی بنا رہے ہیں جس پر وزیر اعلیٰ نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی لاپتہ ہے تو اس پر تمام اسٹیک ہولڈرز کو لیکر کام کرینگے لیکن خدشہ ہے کہ کچھ لوگ افغانستان فرار ہوئے ہیں۔

اس حوالے ٹی بی پی نے بلوچ نیشنل موؤمنٹ کے مرکزی انفارمیشن سیکرٹری دل مراد بلوچ سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کے بارے پاکستانی بیانیہ شروع سے یہی رہا ہے جو قدوس بزنجو کا ہے، یقیناً بلوچستان میں کوئی عوامی حکومت کا قیام کبھی نہیں ہوا، پارلیمنٹ میں عوامی نمائندوں کے نام پر ریاست اپنے اہلکاروں کو لاکر بٹھاتا ہے، بطور ریاست پاکستان میں اتنی اخلاقی جرت نہیں کہ وہ جبری اٹھائے گئے افراد کو اپنی عدالتوں میں پیش کرے۔

دل مراد بلوچ کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان ایک فوجی ریاست ہے جسے فوج چلا رہی ہے یہاں کوئی جمہوریت نہیں، بلوچستان میں فوج کی حکومت ہے اور صوبائی نام نہاد عوامی نمائندے بھی فوج ہی یہاں منتخب کرتی ہے اور فوج ان کو منتخب کرتا ہے جو بلوچ قومی تحریک کے خلاف زیادہ کام کرسکے –

انہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد بارے میں قدوس بزنجو کا بیان حقیقت کی منافی ہے جس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

دل مراد بلوچ کا مزید کہنا تھا کہ قدوس بزنجو اور اسکا بھائی خود لاپتہ افراد کے جبری گمشدگیوں میں شامل ہیں اور مذہبی تصادم کو بھڑاوا دینے میں بھی قدوس و اسکا خاندان شامل رہا ہے۔ قدوس بزنجو اور اس کا بھائی مختلف علاقوں میں ڈیتھ اسکواڈ تشکیل دے کر ریاستی سرپرستی میں بلوچ تحریک کے خلاف کام کررہے ہیں جبکہ ان کا والد بھی اسی طرح کے اعمال میں شریک رہا ہے۔

خیال رہے کہ اس سے قبل بھی حکومتی وزراء ضیاء لانگو اور وفاق بلوچ لاپتہ افراد کے حوالے سے بیرون ممالک مقیم ہونے کا الزام عائد کرتے رہے ہیں جس کو بلوچ حلقوں کی جانب سے مسترد کیا جاچکا ہے جبکہ حکومت کو تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

قدوس بزنجو کے اس بیان کے حوالے سے ٹی بی پی نے بلوچستان میں بلوچ لاپتہ افراد کیلئے آواز اٹھانے والی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ بلوچ سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ ہمیں قدوس بزنجو کے حکومت سے بہت سے امیدیں تھی تاہم نئے وزیر اعلیٰ کے اس بیان سے مایوسی ہوئی ہے، ہم نے ایک تصدیق عمل شروع کی تھی جس کے بعد 2019 میں ہم نے صوبائی حکومت کو لاپتہ افراد کی لسٹ فراہم کی تھی اور وہی لسٹ مرکزی حکومت کو بھی ہم نے جمع کرائی ہے، قدوس بزنجو کو چیلنج کرتے ہیں کہ وہ ہمارے تنظیم کی جانب سے فراہم کردہ تعداد کو غلط ثابت کریں –

نصراللہ بلوچ نے کہا کہ ہم نہیں کہتے کہ لاپتہ افراد کو رہا کرو ہمارا مؤقف ہے کہ ماورائے آئین غیر قانونی عمل قبول نہیں، لاپتہ افراد کو عدالتوں میں پیش کیا جائے ،صوبائی حکومت کی اس موقف سے لاپتہ افراد کے کیس کو نقصان پہنچایا جاتا ہے –

انہوں نے کہا کہ اس سے قبل بھی ایسے دعوے کئے گئے کہ لاپتہ افراد بیرون ممالک فرار ہوئے ہیں تاہم بعد ازاں اس بات کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کے بعد ریاستی ادارے اپنے اس مؤقف سے پیچھے ہٹ گئے تھے –