انسانی حقوق: عہدِ قدیم سے لے کر جدید تک – ثاقب خان

373

انسانی حقوق: عہدِ قدیم سے لے کر جدید تک

تحریر: ثاقب خان

دی بلوچستان پوسٹ

انسانی حقوق کا خیال نیا نہیں ہے۔ اس کی شروعات اُس وقت ہوا جب انسانی تہذیب اپنی شروعاتی دور میں تھی۔ اس کی ابتدا ہوئی وسطی ایشیاء میں نمرود کی قانون کی شکل میں۔ جسے نمرود نے 2350 قبل میسح میں پیش کیا تھا۔ جس میں قصاص کا تصور دیا گیا۔ جیسے کے خون کےبدلے خون، آنکھ کے آنکھ کے بدلے آنکھ۔

ّوقت کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق مزید ترقی کرتا گیا۔ پھر ہم آتے ہیں 725 قبل میسح میں یہاں فرعون نامی ایک حکمران نے اپنے دور میں انسانی حقوق میں ایک نیا قانون متعارف کرویا جو اسکے پورے سلطنت میں نافذ تھا۔ اس کے انسانی حقوق کی قانون میں وراثتی جائیداد کو محفوظ رکھا گیا۔

اس کے بعد مختلف ادوار میں انسانی حقوق میں ترمیم آتے گئے۔جیسا کے سائرس اعظم نے مذہبی آزادی دی۔اشوکا جیسے بادشاہ نے غلامی کو ختم کر کے انسان کو آزادی کا درس دیا۔اسلام کے آنے کے بعد خواتین کے حقوق کو دوسرے حقوق کے نسبت فوقیت دی گئی۔

انسانی حقوق میں انقلاب میگنا کارٹا چارٹر کے ساتھ آیا۔ یہ 1215 کی بات ہے جس میں غلامی یورپ میں اپنی عروج پر تھی۔
اِس کے کچھ نقات نیچے قلمبند ہیں۔
1۔ بغیر پارلیمنٹ کے کوئی ٹیکس نہیں لے گا۔
2۔ چرچ کو حکومت سے علحیدہ کیا گیا۔
3۔ عورتوں کو اُن کے شوہر کے جائداد میں حصہ۔

اِن سارے ادوار کے قوانین کو یکجا کرتے ہوئے دنیا نے دوسرے جنگ عظیم کے بعد انسانی حقوق کو ایک ایسے پلیٹ فارم کے نیچے متحد کیا جو پوری دنیا پر لاگو ہیں۔ جو 1948 میں UDHR (universal declaration of Human Rights) کے نام سے جانا جاتاہے۔ اس میں کل تینتیس آرٹیکلز ہیں جو پوری دنیا کے انسانوں کو وراثت میں ملی ہیں۔ یہ تینتیس آرٹیکلز انسانوں کے مختلف حقوق کی عکاسی کرتی ہیں۔ جیسا کہ
1۔ آزاد پیدائش
2۔ کوئی قومی زبانی نسلی رنگی تعصب نہیں۔
3۔ زندگی کی بقاء
4۔ آزادی

یہ قوانین بنائے تو گئے ہیں کہ آج تک کسی ملک نے اِن پر عمل نہیں کیا۔ اس کی ایک مثال ایک ایسے شخص کی ہے جو پچھلے بارہ سالوں سے انصاف کی تلاش میں سڑکوں پر احتجاج کررہا ہے۔ جسے ہم ماما قدیر کے نام سے جانتے ہیں۔ انسانی حقوق پر کبھی دنیا نے دیہان ہی نہیں دیا یہ براۓ نام بنائے گئے ہیں، جس کی ایک زندہ مثال بلوچوں کی موجودہ صورت حال ہے۔ پوری دنیا میں بلوچ قوم کی ایک ایسی دردناک آواز گونج رہی ہے جسے دنیا سُن کر بھی ان سنا کر رہی ہے۔دنیا امن میں ہے لوگ خوشحال ہیں لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہےکہ بلوچ آج بھی میگناکارٹا کےدور کی طرح اپنی انسانی حقوق کے لیے سڑکوں پر جدو جہد کررہے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں