کون ہو، کہاں سے آرہے ہو، کہاں جارہے ہو؟ – گہور مینگل

297

کون ہو، کہاں سے آرہے ہو، کہاں جارہے ہو؟

تحریر: گہور مینگل

دی بلوچستان پوسٹ

نوے کی دہائی تک ماہی گیروں کی چھوٹی سے بستی گوادر میں جب بحریہ کے جہاز لنگر انداز ہوتے تھے تو مچھلی کے بدلے مقامی لوگ آنے والوں سے پیسوں کے بجائے خوشی خوشی چاول اور تیل لیتے تھے۔ آج اسی چھوٹی سی بستی کے سامنے دنیا کی گہری ترین بندرگاہوں میں سے ایک پاکستان چین اقتصادی راہداری منصوبے کی اساس گوادر بندرگاہ موجود ہے۔

بلوچستان کی ترقی و تبدیلی کے حوالے سے ہمیشہ ریاست نے بلوچ قدرتی وسائل کی لوٹ مار کوجواز فراہم کرنے اور ریسورز تک رسائی کیلئے خوشکن اور بلندو بانگ دعوے ہر دور حکومت میں کئےگئے ہیں۔ چین کی اشتراکی راہداری منصوبے کو ملک سمیت بلوچستان کی ترقی کاجھومر کیاگیا نہ جانے کتنے خوش کن نعروں سے اس بندرگاہ کی اہمیت وافادیت کو گیم چینجر کا لیبل لگا کر عالمی سامراج کو بلوچوں کی قدرتی دولت لوٹنے کےلئے راستہ فراہم کرنے کی کوشش کی گئی۔اس تمام دھکم پیل میں چین نے اپنے دوسرے شہروں سے نسبتا زیادہ پسماندہ علاقوں کے لوگوں کی زندگی کو ترقی دینے سمیت برصغیر میں پنجے گاڑھنے کے لیے چھیالیس ارب ڈالر کی بھاری سرمایہ کاری کی۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے عالمی سامراجی نظام ترقی کے نام پر کمزوروں کا معاشی استحصال کرکے انکے قدرتی وسائل اور بنیادی حقوق کو غصب کرکے طاقتور بننے کی کوششیں کرتا ہے جسے عام اصطلاح میں جدید سامراجیت کہاجاتاہے۔

سامراجیت کی ایک شکل یہ ہوتی ہیکہ کسی بڑے جغرافیائی علاقے میں جہاں چھوٹی ریاستیں قائم ہوں، وہاں کوئی طاقتور ریاست یلغار کرکے ایک واحد سلطنت بنالیتی ہے۔ اسکی مثال ہندستان کی موریہ ریاست سے دی جاسکتی ہے جس نے ہندستان کی چھوٹی اور خود مختار ریاستوں کا خاتمہ کرکے ایک بڑی سلطنت کی بنیاد ڈالی تھی۔

سامراج کی دوسری شکل یہ ہوتی ہے کہ جب کوئی طاقت اپنی جغرافیائی حدود سے باہر نکل کر کمزوروں پر حملہ کرتی ہے ۔انکے تمام وسائل اور زمینوں پر قابض ہوتی ہے اور پھر شکست خوردہ یا نزور قوم کو معاشی وجغرافیائی طور پر غلام بناتی ہے اور مال غنیمت کے طور پر انکے مال و متاع لوٹتی ہے۔ رومی سلطنت اسکی مثال ہے۔

تیس ستمبر کو گوادر میں تاریخ کا سب سے بڑا عوامی جلسہ ہوا۔اکثر سیاسی جماعتوں و دیگر تنظیموں کی جلسے کی مخالفت کے باوجود ضلع گوادر سمیت جیونی،اورماڑہ وپسنی سے مزدور کسان دکاندار,ماہیگیر و دیگر کچلے گئے طبقات یکمشت ہوکر جلسے میں بھرپورتعداد میں شریک ہوئے۔

بلوچستان اپنے بے بہا قدرتی وسائل اورخطے میں جیو پولیٹیکل سچوایشن کی وجہ سے عالمی سامراج کو ہروقت کٹھتارہاہے۔ چائنا پاک ایکنامک کوریڈور اس عالمی سامراجی نظام کی جکڑمیں ہے اور مقامی آبادی اس لوٹ کھسوٹ کوروز اول سے غیر قانونی گردان کر سامراجوں کے خلاف سیاسی وسماجی حوالے سے مزاحمت کررہی ہے۔

جمعرات کے روز گودار کی تاریخ کا غیر سیاسی جلسہ کی قیادت سماجی شخصیت مولانا ہدایت الرحمان کررہے تھے۔جلسے کی خاص بات مقامی آبادیوں کو بنیادی ضروریات پانی بجلی گیس ،روزگار مہیا کرنے سمیت لاپتہ افراد کی بازیابی بھی شامل تھی۔ اس جلسے میں ایک نعرہ گونجتی سنائی گئی کہ کہاں سے آرہے ہو کہاں جارہے ہو؟ اس نعرے کو لیکر عوام نےمختلف اشکال میں قبضہ گیریت کیخلاف صف بندی کرنے کی حامی بھری اور متعلقہ اداروں کومطالبات کے حل کےلئے تیس اکتوبر کی محلت دی گئی۔

اس نعرے کے پیچھے ایک بہت بڑی حقیقت اور منطق چھپی ہوئی ہے شاید بلوچستان کے علاؤہ دیگر صوبوں کے لوگوں کو علم نہ ہولیکن گوادر کی ترقی کے نام پر استحصالی منصوبوں کے آڑمیں مقامی آبادی کو سیکیورٹی کے نام پر شدید خطرات و تحفظات ہیں۔جگہ جگہ سیکیورٹی چیک پوسٹیں قائم ہیں ہرآنے والے اور جانے والے کو پوچھا جاتاہے کون ہو؟ کہاں سے آرہے ہو اور کہاں جارہے ہو؟ جیسے غیر فطری سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ایسے سوالات بلوچ نفسیات و قومی روایات کے متصادم ہیں۔

سیکیورٹی کے نام پر خواتین سمیت بزرگوں اور عام شہریوں کے لئے نقل و حرکت ناممکن اور دشوار ہوگیا ہے۔گزشتہ دنوں خاندان کے ہمراہ لکڑیاں چننے کیلئے گئی معمر خاتون تاج بی بی کا ایف سی کے ہاتھوں قتل سمیت دیگر واقعات بلوچ قومی روایات کی پامالی اور مزاحمت کا سبب بن رہے ہیں۔اس تمام صورتحال میں عوام کو اپنی صفوں کو منظم ق مظبوط کرکے اپنے تمام بنیادی حقوق کی جدوجہد کرنے ہوگی گوکہ حالیہ عوامی سمندر نے مقتدر ادوارں سمیت علاقائی قیادت کو پیام دے گیاہے کہ اگر انکے جائز اور بنیادی مسا ئل حل نہ کئے گئے تو گوادر سمیت تمام ملحقہ علاقوں میں عوامی سیلاب آسکتا ہے خدشہ یہی ہیکہ آنے والے دنوں میں گوادر کی سڑکوں پر مزاحمت دیکھنے کو ملےگی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں