ماں کے دل و دامن کو جلنے سے بچا لو ۔محمد خان داؤد

102

ماں کے دل و دامن کو جلنے سے بچا لو

تحریر:محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

سرمائے دار سمجھا کہ غریب بلوچ ماں کا بیٹا ایک بجھی ہوئی چننگ(شعلہ)ہے جس پر بدترین تشدد کریگا اور جب وہ مر جائیگا تو وہ اسے خودکشی کا رنگ دے کر اپنے ہاتھ صاف کر لے گا اور بات آگے بڑھی تو بھوکے غریبوں کو کچھ پیسے دیکر خاموش کرادیا جائے گا،ظالم سرمائے دار نے ایسا کیا بھی مظلوم بلوچ ماں کے مسکین بیٹے پر بدترین تشدد کیا اس بدترین تشدد میں وہ ہلاک ہوا۔اس کے مردہ جسم پر پرانے کپڑے پہنا کر اسے نئے کفن کے پیسے دے کر روانہ کیا،ماں روئی چیخی،چلائی،اور جب اس مسکین بیٹے کہ تن سے میلے پرانے کپڑے اتارے گئے تو تاریخ شرماگئی۔ بلوچستان کے پہاڑ شرم سار ہوئے ان کی گردن جھک گئیں۔ کھڑے درختوں نے اپنی ٹہنوں سے اپنے بدن کو ڈھانکا کیوں کہ وہ اس بدترین تشدد کو دیکھ کر برہنہ ہو گئے،روشن دن میں تاریکی پھیل گئی اور مظلوم بلوچ ماں بے ہوش ہو گئی۔

اتنی بے دردی سے تو سی پیک اتھارٹی والے راستے میں آنے والے بھاری بھا ری پتھروں اور پہاڑوں کو ریزہ ریزہ نہیں کر رہے ہونگے جتنا ایک سرمائے دار نے ایک مسکین مزدور کے جسم کو پیٹا اور مارا ہے۔

ایسی بے دردی سے تو کوئی درخت پر آری اور کلھاڑی نہیں چلاتا جتنی بے دردی سے صدا بہار بس ٹرمنل والوں نے بند کمرے میں بلوچ مظلوم ماں کے بیٹے پر ضربیں لگائیں ہیں۔

وہ چیخا ہوگا،چلایا ہوگا،رویا ہوگا،تڑپا ہوگا۔بھاگا ہوگا ایک کونے سے دسرے کونے تک!
پر مختصر سے بند کمرے میں وہ کتنا بھاگ سکا ہوگا؟
جب وہ رُک گیا اور تھک گیا تو اس کے جسم پر بد ترین تشدد کیا گیا
جب اس کی اُکڑتی سانسیں چلی گئی تو لطیف نے بھی رو کر کہا ہوگا
”ویین بھن پھوتی سکندی کے سجنے!“
جہاں کی مٹی تھی وہاں پہنچی!
جب شہید محراب پندرانی کے جسم سے سانس نکل گئی تو سرمائے دار نے اس کے جسم پر پرانے کپڑے پہنا کر اسے نصیر آباد روانہ کیا کہ وہ دفن ہو سکے،پر اس ظالم سرمائے دار کے ذہن و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ سرد لاش نہیں
یہ گرم لاش ہے!
اس لاش کا سفر دفن ہونے سے تمام نہیں ہوگا
پر اس لاش کا سفر شروع ہی دفن ہونے کہ بعد ہوگا!
جب مشعال خان کو جلا کر مار پیٹ کر قتل کر دیا گیا تھا تو میڈیا کے نمائیندوں نے مشعال کی ماں سے پوچھا کہ اس پر کتنا تشدد کیا گیا تھا
تو مشعال کی ماں نے جواب دیا
”جب لوگ اسے دفنانے جا رہے تھے میں نے کفن سے اس کا ہاتھ چوماں تو اس کی انگلیاں ٹوٹی ہوئی تھیں!“
اب ایسا کون ہے جو شہید محراب پندرانی کی ماں سے پوچھے کہ اس پر کتنا تشدد ہوا تھا
تو ماں جواب دیتی کہ
”اس کے جسم پر بال کم
نیل زیا دہ تھے
اس کی پسلیوں پر ہدیاں کم
نیلے سرخ نشان زیادہ تھے
شروع میں،میں نے اس کے جسم پر بدترن تشدد کے نشان گنے
پھر میں بے ہوش ہو گئی
اس کا منہ کھلا ہوا تھا
بلکل ایسے جیسے بچے روتے میں ماؤں کو پکارتے ہیں
میں نے اس کے منہ کو بند کیا
منہ پھر کھل گیا
مجھے ایسا محسوس ہوا
کھلا ہوا منہ
ماں!ماں!اماں!پکار رہا ہے!
میں نے منہ پر ہاتھ رکھ کر دیکھا منہ کی گرمی اور خاموشی ماں!ماں ہی پکار رہی تھی“

اب جب شہید محراب پندرانی کو نصیر آباد کے قبرستان میں دفن کیا گیا ہے تو وہ قبر بھڑکو (جل اُٹھنا)دے کر جل اُٹھی ہے اور اس بات کا تقاضہ کر رہی ہے کہ اس کے ساتھ انصاف کیا جائے سرمائے دار کی دھاڑی میں ہاتھ ڈالا جائے اور اس سے پوچھا جائے کہ اس نے ایک غریب مظلوم مسکین بلوچ ماں کے مزدور بیٹے کو کیوں قتل کیا؟
ان آنکھوں کو کیوں قتل کیا جن آنکھوں میں سپنے تھے،خواب تھے
ان پیروں کو کیوں قبر میں اتار دیا جو پیر زندگی کی طرف بڑھ رہے تھے مگر آہستہ آہستہ
ان ہاتھوں کو کیوں دفن کیا جو ہاتھ مستقبل میں اپنی بہنوں کی ڈولی کو وداع کرتے
ان ہاتھوں کو کیوں دفن کیا جن ہاتھوں کو ماں مہندی سے رنگتی
اس ماتھے کو کیوں مٹی کی نظر کیا جس ماتھے پر ماں ارمانوں کا سہرہ باندھتی!
ان گالوں کو کیوں بھا ری پتھروں کے نیچے دفن کر دیا جن گالوں کو ماں چومہ کرتی تھی
ان ہونٹوں کو کیوں مٹی کی نظر کیا جن ہونٹوں پر محبت کا جنم ہوتا
اور کوئی آگے بڑھ کر اس محبت کے رس کو چوم لیتی
ان نینوں کو کیوں دفن کیا جن نینوں میں نیند کم سپنے اور خواب زیا دہ تھے۔

اب جب شہید محراب پندرانی کی لاش نصیر آباد کے قبرستان میں انصاف کے لیے جل اُٹھی ہے تو سرمائے دار چاہتے ہیں کہ اس لاش پر جرگے کا پانی ڈال دیا جائے اور اس لاش کو ٹھنڈا کر دیا جائے
اور دیر یا بدیر ایسا ہی ہوگا کیوں کہ سرمائے دار کے گلے کبھی بھی پھانسی گھاٹ تک نہیں جاتے۔

یہ ایک تاریخ ہے کیوں کہ ان کے پاس بہت سے پیسے ہوتے ہیں جن سے انصافی جرگے خرید لیے جا تے ہیں شاہ زیب جتوئی کیس سے لیکر سندھ کے کالے جرگوں تک سب میں یہاں انصاف نمک پانی ہوتا دیکھا گیا ہے اور یہ بھی منظر دور نہیں کہ سدا بھار ٹرمنل کا سرمائے دار مالک کسی سردار کو نصیر آباد میں لائے اور اس ماتم کرتی ماں کی جھولی میں کچھ سکے ڈال کر اپنی گردن پھانسی گھاٹ سے چھڑا لے
ہو سکتا ہے،ہوتا رہا ہے اور ہو بھی جائیگا
مائیں تو معصوم ہو تی ہیں
چاہیے وہ مائیں انسانوں کی ہوں، فرشتوں کی چاہیے شیطانوں کی!
ان کالے جرگئی سسٹموں کو ہم نے روکنا ہوگا
عوامی طاقت سے
اپنی ہمت سے
اگر ایسا نہیں ہوا تو شہید محراب پندرانی کی قبر بس
ماں کے دامن ودل کو ہی نہیں
پو رے سسٹم کو جلا ڈالے گی
اس سسٹم میں،میں بھی ہوں
اور تم بھی ہو.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں