روح دفن ہوئی،دل دفن ہوا،سب کچھ دفن ہوا .محمد خان داؤد

143

روح دفن ہوئی،دل دفن ہوا،سب کچھ دفن ہوا

تحریر:محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

ملک کے امیر شہروں سے کیا پر ملک کے پسماندہ اور غریب قصبہ نما شہروں سے بھی بہت دور ایک بلوچ ماں کا عبادت جیسا بچہ مارا گیا۔امیر شہر،امیرانِ شہر اور اس میڈیا کو معلوم ہی نہیں کہ پنجگور کے چتکان میں ایک ماں کے ساتھ کیا ہوگزرا۔روائیتی میڈیا کی بے بسی اور اندھا پن تو سمجھ میں آتا ہے کہ وہ معصوم بلوچ بچہ کسی برانڈ کا امبیسڈر نہیں تھا کہ اس کے قتل پر ملک اور ملکی میڈیا میں تھر تھلا مچ جاتا پر سوشل میڈیا پر بھی خاموشی طاری ہے، حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سوشل میڈیا اس معصوم کے قتل پر ایک چیخ بن کر ابھرتا،ایک آہ بن کر نکلتا،آگ بن کر پو رے سوشل میڈیا کو جلا ڈالتا، پر چیخ کیا اس معصوم کا قتل سوشل میڈیا پر چیخ کیا بنتا پر ایک کراہ بھی نہیں بنا۔بس وہ ماں ہے جو امیرو ں کے شہر سے سیکڑوں کلو میٹر دور اپنے بچے کو دفن کر چکی اور اب رو رہی ہے، جب کہ ہم جیسے سینکڑوں فیس بکی دانشور فیس بک پر ادھ ننگا جسم تلاش کر رہے ہیں کہ کس نے کیا اور کیسی خوبصورت اسٹوری اپ لوڈ کی ہے جس میں گوری لڑکیوں کے گورے گو رے ادھ ننگے پستان دیکھ کر خوش ہو رہے ہیں
پر اس ماں کا کیاجو کچھ نہیں جانتی۔جسے یہ بھی معلوم نہیں کہ ملک سرحدوں کی لکیروں کا نام ہے۔

جسے یہ بھی نہیں معلوم کہ ملک میں سیا سی پارٹیاں ہو تی ہیں اور وہ اقتدار حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے کو ننگی گالیاں دیتی ہیں
اسے تو یہ بھی نہیں معلوم کہ ہر سیا سی جماعت کا سچا جھوٹا ایک اپنا منشور ہوتا ہے
وہ ماں تو سیا سی پارٹیوں کے پرچموں سے بھی لا علم ہے
اس ماں کو تو یہ بھی خبر نہیں کہ اب اس ملک تو زبردستی میں ریاست ِ مدینہ کہتے ہیں
وہ ماں بلوچستان کے علاوہ ملک کے دوسرے صوبوں سے واقف نہیں
وہ ماں تو یہ بھی نہیں جانتی کہ پنجگور چتکان سے آگے اور بھی جہاں ہے؟

وہ ماں اختر مینگل سے واقف نہیں اس ماں کو کیا معلوم کہ اس سیاست میں ڈاکٹر مالک جیسے اداکار بھی ہیں جو کارکنوں کو دیکھ کر مٹی پر بھی بیٹھ جا تے ہیں۔ وہ ماں نہ تو زہری سے واقف ہے اور نہ جام کمال سے
اس ماں کو کیا معلوم کہ بلوچستان میں اب باپ کی سرکار ہے۔اور باپ تو باپ ہوتا ہے چاہیے کسی کا بھی ہواس ماں کے لیے تو سب کچھ پنجگور اور چتکان ہی تھا۔اس ماں کا گھر بھی چتکان۔اس ماں کا جہاں بھی چتکان،اس ماں کا تو سانس بھی چتکان۔اس ماں کی تو زندگی بھی چتکان،۔اس ماں کا چاند بھی چتکان۔اس ماں کا سورج بھی چتکان۔اس ماں کی ہوائیں بھی چتکان،اس ماں کی بارشیں اور ان بارشوں میں بھیگنا بھی چتکان۔اس ماں کا تو سارا جہاں ہی چتکان تھا،پر کون جانتا تھا کہ آج اس ماں کا اندھیرے میں ڈوب جائیگا۔اس ماں کے پہلے بھی قدم چتکان سے دور نہیں جا تے تھے اب اگر وہ ماں لاکھ چاہیے جب بھی اس کے پیر چتکان کی حدود کو نہیں چھوڑیں گے۔

کیوں کہ اس ماں کا پورا جیون آج ریاستی نااہلی کے سبب چتکان بھی دفن ہو گیا!
مائیں پہاڑوں کے اُوٹ میں اپنے کچے گھروں میں بچے جنتی ہیں،بھونکتی بندوقیں ان بچوں کو کھا جا تی ہیں اور وہ دوڑتے،مسکراتے،ہنستے،کھیلتے بچے قبر بن کر پہاڑوں کے میدانوں میں دفن ہو جا تے ہیں!
پنجگور کے چتکان کی اک ماں نے آج سے چار سال پہلے ایک ہنستا مسکراتا بچہ جنما تھا آج وہ بچہ پنجگور کے چتکانکے پہاڑوں میں دفن ہو گیا
اور ریاست ِ مدینہ ہے کہ جسے کچھ خبر نہیں
اور ریاست مدینہ ہے جو اپنے مخالفوں کو گالیاں دے رہی ہے
اور ریاستِ مدینہ ہے جو اپنی بقا کے لیے ہر رز ایک نیا جھوٹ گھڑ رہی ہے
اور ریا ست ِ مدینہ ہے کہ میڈیا کا سہارا لیکر جینے کی کوشش کر رہی ہے
اور ریاست مدینہ ہے کہ لانگ شوز کے اور دیکھ رہی ہے
ہمیں ریاستِ مدینہ سے کوئی گلا نہیں وہ تو اس بلوچ ماں سے واقف ہی نہیں پر بلوچ سیا ست کو کیا ہوا ہے جو یہ نہیں جانتی کہ آج پنجگور کے چتکان میں کون سے ماں یتیم ہوئی ہے
یہ ضروری نہیں کہ ماؤں کے مر جانے پر بچے یتیم ہوں
پر ایسا بھی تو ہوتا ہے کہ مسکراتے بچے مر جائیں اور مائیں یتیم ہو جائیں
آج پنجگور کےچتکان میں ایک ماں یتیم ہوئی ہے اور بلوچ سیا ست کو کچھ خبر نہیں
یہ بھی ضروری نہیں کہ روائیتی میڈیا جب تک کسی خبر کو ہائی لائیٹ نہیں کرے گا تو وہ خبر ہی نہیں روائیتی میڈیا کو گدھے چلا رہے ہیں،ان پر گدھوں کی خبریں آتی ہیں،اور اسے گدھے کی کنٹرول کرتے ہیں
پر سوشل میڈیا کو کیا ہو گیا ہے آج تو پنجگور کے پتکان کے معصوم کے قتل پر اور ایک ماں کے یتیم ہوجانے پر سوشل میڈیا جل اُٹھتا پر جلنا تو کیا یہ سوشل میڈیا سُلگ بھی نہیں رہا یہاں انگارے کیا یہاں سے تو دھونہ بھی نہیں نکل رہا ہم سب منافقت کا شکار ہو گئے ہیں
ہم سوشل میڈیا پر ننگے پستان تلاش رہے ہیں
ہم یہاں وہ سب کچھ دیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں جن کے ہم مارے ہوئے ہیں
پر ہم یہاں اس تصویر کو دیکھ ہی نہیں رہے جس میں ایک پھول سا بچہ کچلا گیا
جب ہما ری آنکھیں اس کچلی ہوئی تصویر کو ہی نہیں دیکھ پا رہی تو ہم اپنے تصور میں اس ماں کو کیسے دیکھ سکتے ہیں جس ماں نے آج اس بچے کو دفن کر دیا جس بچے کو اس ریاست ریاستِ مدینہ میں بھی کھیلنے کو بس پہاڑوں کے پتھر تھے
ہم اپنے تصور میں اس ماں کو کیسے دیکھ سکتے ہیں جو دیوانی ہو رہی ہے
جس ماں کا پنجگور کے پتکان میں بس بچہ دفن نہیں ہوا
پر عبادت جیسا خوبصورت بچہ دفن ہوا
روح دفن ہوئی،دل دفن ہو،سب کچھ دفن ہوا!
اب بس ایک دیوانی ماں ہے
اور بہت سے آنسو،اور بہت سا درد


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں