بلوچستان میں حکومت نام کی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی سوائے چند طاقت ور لوگوں کے – این ڈی پی

152

نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنماؤں نے آج کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ اگر دیکھا جائے اس وقت صحافیوں کو بھی بہت سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے کیونکہ ایک طرف پورا میڈیا سنسر شپ کے زد میں ہے دوسری جانب اگر کوئی صحافی حقائق کو سامنے لائے تو ان صحافیوں کو ڈرا دھمکا کر انہیں مارا جاتا ہے یا ان پر غداری کے پرچے تک کاٹے جاتے ہیں۔ ہم آپ کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی اظہار رائے آزادی پر یقین رکھتی ہے۔ اور ہم سمجھتے ہیں کہ جس ریاست یا سماج میں اظہار رائے آزادی نہ ہو وہاں جمہوری اور پروگریسو سوچ نہیں پنپ سکتی، وہاں شدت پسندی سر چڑھ کر بولے گا۔ اگر دیکھا جائے ہمارا خطہ خاص کر بلوچستان آج جن مسائل کا آماجگاء بن چکا ہے اس کی سب بڑی وجہ یہی ہے کہ یہاں جمہوریت اور جمہوری سوچ اور اظہار رائے آزادی پر قدغن ہے۔

انہوں نے کہا کہ سر زمین بلوچستان جسے قدرت نے بیش بہا خزانوں سے نوازا ہے اس کی کسمپرسی اور زبوں حالی و پسماندگی دیکھ کر ہر ذی شعور کا دل خون کے آنسو رونے لگتا ہے۔ اگر چہ بلوچستان میں چاندی سے لے کر ہمہ قسم کی قدرتی معدنیات وسائل وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ گوادر جیسی ساحلی پٹی بھی بلوچ کے پاس موجود ہے نہ جائے اسے بلوچ کی خوش قسمتی کہیں یا بد قسمتی کیونکہ استبدادی اور نوآبادیاتی پالیسیوں کے تحت اس سر زمین کے ساحل وسائل یہاں کے باشندوں کیلئے شجر ممنوعہ بنا دیئے گئے ہیں۔ بلوچستان میں اس وقت امن امان کی صورتحال دن بدن بگڑتی جا رہی ہے۔ جبری گمشدگیاں، اغواہ برائے تاوان، ٹارگٹ گلنگ، چوری ڈکیتی اپنے عروج پر ہے۔ صوبائی و ضلعی انتظامیہ ان کو روکنے میں ناکام ہوچکے ہیں۔ حالیہ دنوں میں خاران سمیت باقی اضلاع میں دن دھاڑے چوری ڈکیتی کے واردات ہوچکے ہیں، اسی طرح پچھلے دنوں پنجگور میں کمسن بچے کو بے دردی کے ساتھ قتل کرنے کا افسوس ناک واقعہ پیش آیا۔ جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔اسی طرح عوامی نئشنل پارٹی کے مرکزی رہنماء عبیداللہ کاسی کو اغواء برائے تاوان کے نام پر اغواہ کرکے کل اس کی لاش پھینکی گئی اور حکومت سوائے مذمت کے اور کچھ نہیں کر سکا۔

انہوں نے مزید کہا کہ شروع دن سے ہی ہم یہ سنتے آ رہے ہیں کہ سی پیک کی وجہ سے اس پورے خطے سمیت خاص کر مکران اور گوادر کے لوگ ترقی کے آخری زینے پر پہنچ جائے گے لیکن یہ تمام دعوؤں کے پول اس وقت کھل جاتی ہے اور ریاست کے دعوے جھوٹے اور کھوکھلے ثابت ہو جاتے ہیں کہ جب گوادر سمیت پورا مکران بجلی نہ ہونے کی وجہ سے تاریکی میں ڈوب جاتا ہے۔ عوام اپنے بنیادی حقوق پانی اور بجلی کیلئے روڈوں پر نکل آتی ہے حتی کہ مجبوری کے ہاتھوں مجبور ہو کر توڑ پھوڑ تک کرتے ہیں۔لیکن حکمران طبقہ خواب غفلت میں ہے انہیں عوام اور ان کے بنیادی سہولیات سے کوئی سروکار نہیں ہے۔اس وقت پورے بلوچستان میں بجلی اور پانی ناپید ہونے کی وجہ سے عوام الناس کی زندگی اجیرن بنا دیا گیا ہے۔ اگر دیکھا جائے اس وقت بلوچستان میں حبکو اور اوچ پاور پلانٹ بلوچستان کی ضرورت سے کہی زیادہ میگا واٹ بجلی پیدا کررہے ہیں لیکن شومئی قسمت بلوچستان سے جو بھی وسائل پیدا ہوتا ہے ان میں سب سے پہلا حق دوسرے صوبوں کا ہوتا ہے اسی فارمولے کے تحت حبکو اور اوچ پاور پلانٹ سے بلوچستان کو پورا بجلی نہیں دیا جاتا ہے۔اس گرمی کے موسم میں بھی دارالحکومت کوئٹہ کے سواء باقی پورے بلوچستان کے واسیوں کو چار سے چھ گھنٹے تک بجلی فراہم کیا جاتا ہے۔ سوئی گیس کا بھی یہی حال ہے نصف صدی سے پاکستان کے دیگر صوبوں کو گیس فراہم کیا جا رہا ہے لیکن اب تک ڈیرہ بگٹی سے نکلنے والے گیس سے ڈیرہ بگٹی اور مکران سمیت بلوچستان کا بیشتر حصہ اس سے محروم ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر نصیر آباد ڈویژن پر بات کیا جائے تو اس وقت وہاں سب سے بڑا مسئلہ صاف پانی کا ناپید ہونا ہے۔ وہاں کے لوگ جوہڑ اور تالابوں سے پانی پینے پر مجبور ہیں اس لئے نوے فیصد لوگ ہیپاٹائٹس سمیت کہیں بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ پندرہ لاکھ سے زائد نفوس پر مشتمل یہ خطہ اس وقت صاف پانی سے محروم ہیں اس لئے تالاب اور جوہڑ کے زہریلے پانی پی کر رپورٹوں کے مطابق ہر سال دس فیصد سے زیادہ لوگ زہریلے پانی کی وجہ سے مختلف بیماریوں کا شکار ہوکر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔اسی طرح بلوچستان میں سندھ سے ملحقہ زرعی بیلٹ نصیر آبادہے جہاں زمیندار اور کسان سندھ سے آنے والے پانی پر انحصار کرتے ہیں لیکن سندھ حکومت کی جانب سے بار بار ارسا (انڈس ریور سسٹم اتھارٹی) کے معائدے کی خلاف ورزی کرکے بلوچستان کو ہمیشہ کم پانی مہیا کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے نصیر آباد بیلٹ کے کسان اور زمینداروں کے فصلیں ہر سال کم پانی ملنے کی وجہ سے تباہ ہو رہے ہیں۔ لیکن صوبائی حکومت کی جانب سے موثر اقدام نہیں اٹھایا گیا ہے اور نہ ہی اس مسئلے کو سنجیدہ لے کر اس حوالے سے سندھ حکومت سے ڈائیلاگ کیا گیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جیساکہ ہم سب کو پتہ ہے کہ بارڈ کیساتھ بسنے والے بلوچستان کے تمام علاقوں کے لوگوں کا ذریعہ معاش بارڈر کے کاروبار سے منسلک ہے حکومت کی جانب سے پاک ایران بارڈر کی بندش سے تیل کے کاروبار سے وابستہ سینکڑوں لوگ شدید مشکلات کا شکار ہیں۔دوسری جانب ٹوکن اور اسٹیکر سسٹم نافذ کیا گیا ہے ہم سمجھتے ہیں کہ بارڈر سے ملحقہ علاقوں کے لوگوں کی زندگیاں انہی کاروبار سے جڑا ہوا ہے جس کو گورنمنٹ نے بند کرکے ٹوکن اور اسٹیکر سسٹم کو نافذ کرکے من پسند افراد کو نوازا جا رہا ہے۔ ٹوکن اور اسٹیکر سسٹم کا مسلط کرنا نوآبادیاتی پالیسیوں کا تسلسل ہے۔ لہذا ہم پارٹی کی توسط سے ٹوکن اور اسٹیکر سسٹم کو نوآبادیاتی پالیسیوں کا تسلسل قرار دے کر اسے رد کرکے اس سسٹم کو ختم کرنے کی اپیل کرتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ہم حکومت وقت سے گزارش کرتے ہیں کہ فوری طور پر ایران بارڈر پر کاروباری بندش کو ختم کرکے لوگوں کو آزادانہ ماحول میں کاروبار کی اجازت دی جائے۔ تاکہ یہ لوگ باعزت طریقے سے اپنی کاروبار کو جاری رکھ سکیں۔

عالمی وباء کرونا کی چوتھی لہر نے اس وقت پوری دنیا کو اپنی لپیٹ لے چکا ہے۔ تیزی کے ساتھ پھیلی ہوئی کرونا وائرس سے ہمارا خطہ بھی محفوظ نہیں رہ سکا ہے۔ شروع سے لے کر آج تک اس وبا ء نے نہ جانے کتنے گھروں کو اجاڑ دیا ہے۔ نہ جانے کتنے قیمتی جانے لے چکا ہے۔ ہمارا خطہ ویسے بھی پسماندگی، غربت، سہولیات کا فقدان سمیت کئی محرومیوں کا شکار ہے۔ رہی سہی کسر کرونا جیسی وبا ء پورا کر رہا ہے۔ اس خطے میں خاص کر مکران اس وقت سب سے زیادہ کرونا وائرس کی زد میں ہے۔ وہاں پانی اور بجلی پہلے سے ہی ناپید ہے عوام سراپا احتجاج ہے اس کے ساتھ کرونا وائرس جیسی وباء نے بھی وہاں کے لوگوں کی زندگیوں کومتاثر کر رکھا ہے۔ لہذا حکومت کو چاہیئے کہ مکران سمیت اس پورے خطے میں کرونا وائرس کے حوالے سے سنجیدگی کا مظاہرہ کرکے ایک مستقل اور جامع پالیسی بنا کر انہیں نافذ العمل کرے اور ساتھ ساتھ ہی ویکسینیشن کے عمل کو تیزی کے ساتھ آگے لے جائے تاکہ اس وباء سے کم سے کم لوگوں کو جانی و مالی و مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔

بلوچستان میں اس وقت سب بڑا اور سنگین مسئلہ انسانی حقوق کی پامالی کا ہے۔ جہاں ایک جانب حکومت کی طرف سے مزاکرات کا شوشہ کیا جا رہا ہے تو دوسری جانب بلوچ علاقوں میں فوجی آپریشن اپنے تسلسل کیساتھ جاری ہے جس میں کوئی کمی نہیں آیا ہے اور ان آپریشنوں میں بچوں، خواتین، نوجوان اور بوڑھو ں کو جبری طور پر اٹھا کر اپنے فوجی کیمپوں میں لے جا کر ان پر تشدد کیا جاتا ہے اور اس تشدد کی وجہ سے کہیں لوگوں کی جانیں تک چلی گئی ہیں حالیہ مکران میں کیگد بلوچ نامی خاتون سمیت ایک نوجوان کی موت واقع ہوئی ہے۔ دوسری جانب لاپتہ افراد کے لواحقین جب اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے پرامن احتجاج اور قانون کے تحت آواز اٹھاتے ہیں تو ریاستی اداروں کی جانب سے ان کو ڈرا دھمکا کر ان کے گھروں پر چھاپے مارے جاتے ہیں ان کے لواحقین کو تشدد کیا جاتا ہے حالیہ دنوں لاپتہ راشد حسین کے گھر پر چھاپہ مار کر ان کے والد اور والدہ پر تشدد کرنا، بہنوئی کو اٹھا کر لے جانا اس کی واضح مثال ہے۔

انہوں نے کہا کہ نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی یہ سمجھتی ہے کہ اس وقت بلوچستان میں حکومت نام کی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی سوائے چند طاقت ور لوگوں کے جو اس وقت طاقت کے استعمال والی پالیسی جاری رکھے ہوئے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ بلوچستان کے مسئلے کا واحد حل طاقت ہی میں مضمر ہے۔ مذکورہ مسائل سمیت اور ایسے بہت سے مسائل ہیں جیسا کہ بے روزگاری، خواتین کو در پیش مسائل جیسا کہ کاروکاری کے نام پر انہیں قتل کرنا، دور دراز علاقوں میں زچگی سینٹر نہ ہونے کی وجہ سے دوران حمل کہیں خواتین وفات پا چکے ہیں۔ خاص کر کوہلو اور ڈیرہ بگٹی جیسے پسماندہ اور پہاڑی علاقوں میں زچگی کے دوران بہت خواتین جان کی بازی ہار گئے ہیں، اسی تعلیمی اداروں میں طلبہ کو در پیش مسائل سمیت اور کہیں مسائل ہیں کہ جن پر بولا جاسکتا ہے اور آواز اٹھایا جا سکتا ہے اور ہماری پارٹی وقتا فوقتا بلوچستان کے ان تمام چھوٹے بڑے مسائل پر آپ صحافیوں توسط سے آواز اٹھائے گی۔اس وقت ان تمام چھوٹے بڑے مسائل جن کا براء راست تعلق عوام سے ہے حکومت کی جانب سے ان کو حل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں لیا جا رہا ہے۔ ہم سجھتے ہیں کہ طاقت کا سر چشمہ عوام ہی ہے اسی لئے اقتدار پر براجمان حکمرانوں کو چاہیئے کہ وہ عوام کے مسائل پر سنجیدہ ہوکر انہیں حل کریں بصورت دیگر اگر یہی تسلسل جاری رہا تو اس کے بیانک نتائج برآمد ہونگے۔