آہ!شپاں ماتم ءِ ۔محمد خان داؤد

192

آہ!شپاں ماتم ءِ

تحریر:محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

جب اغوا کنندہ کسی مغوی کے سینے میں گولی مارتے ہیں تو کیا وہ ایک گولی بس اس مغوی کے سینے سے پار ہو تی ہے؟کیا وہ گولی بس اس ایک مغوی کو مغوی سے مقتول بنا تی ہے؟کیا گولی کے درد کو جھیلنے کہ بعد بس اس مغوی کے منھ سے نکلتا ہے”ہائے اماں!“؟مغوی بھی وہ جو پہلے گم شدہ ہو تے ہیں،پھر رات کی تاریکی میں آدھی رات کے گیدڑ انہیں پہاڑوں کی اُوٹ،پتھروں کی پشت اور جھاڑیوں کی درمیاں لاکر پولیس مقابلا دکھا کر قتل کر دیتے ہیں،پر ان چلائی گولیوں کا سفر ختم نہیں ہوتا،
ان بارود سے بھری چلائی گولی سے زندگیاں تمام ہو جا تی ہیں
آہ مر جا تی ہے
آس مر جا تی ہے
پیا ملن کی آس مر جا تی ہے
زندگیاں مر جا تی ہیں
نام مر جا تے ہیں
پر گولیوں کا سفر نہیں مرتا
پر گولیوں کا سفر تمام نہیں ہوتا
جیسے ہی نام نہاد بندوق بردار ان مغویوں کو اپنی بڑے ٹائروں والی محفوظ گاڑیوں میں لاتے ہیں ان کے ہاتھ پشت پر باندھ کر ان کے اداس چہروں پر سیاہ کپڑا ڈال کر انہیں اپنی لاتوں سے اپنے سے دور ہانک کر ان کے نعیف،کمزور،بیمار جسموں پر گولیاں چلا تے ہیں،وہ گولی ان پہاڑوں سے سیکڑوں کلومیٹر کا سفر سیکنڈوں میں طے کر کے اس ماں کے سینے کو چیرتی ہے جو ماں ہوا سے ہلتے درپر بھی اُٹھ بیٹھتی ہے جس ماں کی نیند ماری جا چکی ہے جس ماں پر نیند کا کوئی غلبہ نہیں، جس ماں کے نصیب میں آئے ہیں رتجگے!
جو بس جاگتی ہے، اداس رہتی ہے اور روتی ہے ،جو ماں ایک زمانے سے نہیں سوئی جس ماں کی آنکھ بس اس لیے نہیں لگتی کہ نہیں معلوم میرے بیٹے نے کھانا کھایا ہوگا یا نہیں؟وہ مجھے یاد کر رہا ہوگا،وہ بیمار ہوگا؟اسے کیا ہوا ہوگا؟تو جب بندوق بردار،پہرے دار ان مغویوں پر گولیاں برساتے ہیں تو وہ گولیاں سیدھی جا کر ان معصوم ماؤں کے سینوں میں پیوست ہو جا تی ہیں جو پہلے ہی دردوں کی ماری ہیں،جو پہلے ہی مسافر ہیں،جن کے پیر پہلے ہی دھول آلود ہیں،جن کی آنکھیں پہلے ہی اشک بار ہیں۔جن کی جوتیاں سفر کی دھول سے بھری ہوئی ہے،جن کی جوتیاں سفر کے درد سے بھا ری ہیں،جن کے نین اداس ہیں،جن کی مانگ میلی ہے،جن کے سروں کے دوپٹے شکست خوردہ پرچموں کی ماند ہیں،
جو بس
درد پی رہی ہیں
درد کھا رہی ہے
اور درد جھیل رہی ہے!!
وہ جو پہلے ہی کرب و بلا جیسے دیس میں جی رہی ہیں
وہ جو پہلے ہی اپنے حصے سے بھی زیادہ درد جھیل چکی ہیں
وہ جو پہلے ہی کوفہ جیسے دیس کا سفر کر رہی ہیں
وہ جن کی کہیں شنوائی نہیں
وہ جن کے درد کا کہیں اندراج نہیں
وہ جن کے پیر زخمی ہیں
وہ جن کے آہ کی کہیں کوئی فریاد نہیں
وہ جو دیوانیہ ہیں
وہ جو اب اس معاشرے میں پاگل سمجھی جا تی ہیں
وہ جو منتظر ہیں
وہ جن کی دید دھندلا گئی ہے
وہ جس اس دیس کی بد نصیب مائیں ہیں
وہ جن کے حصے میں آئے بس سفر سفر در سفر!
وہ جو اپنے حصے کا پُل صراط طے کر چکی ہیں
وہ جن کا پھر بھی اس ملک کے جنت میں داخلہ ممنوع قرار دے دیا گیا ہے
وہ جن کو خدا بھول بیٹھا ہے
وہ جو کسی کو بھی یاد نہیں
وہ جن کے نام کہیں لکھی پڑھے سنے نہیں جاتے
وہ جو مغوی بیٹوں کی لاش جیسی مائیں ہیں
وہ جو مقتول بیٹوں کی مظلوم مائیں ہیں
وہ جو آپ نوحہ
آپ مرثیہ
آپ ماتم ہیں
وہ جو آپ سینہ کوبی
زنجیر زنی ہیں
وہ جو آپ محرم
آپ عشرہ ہیں
وہ جن کے پاس بس دردوں کی سبیل ہے
پر ان سبیلوں سے کوئی پانی نہیں پیتا!
وہ جو اب سب کچھ بھول رہی ہیں
جن سے زندگیاں روٹھ گئی
وہ جو یتیم نہ ہو تے یتیم پوتوں کی دادیاں ہیں
وہ جو بیواہ نہ ہو تے بیواہ بہوں کی سانسیں ہیں
وہ اپنا ماتم کریں؟اپنے بے سمجھ پوتوں کا ماتم کریں یا اپنی جوان بہوں کا ماتم کریں
وہ ماتم کرتی مائیں ہیں
وہ ماتمی مائیں ہیں
وہ ماتمی موسم کی اداس ماتمی مائیں ہیں
وہ کہاں جائیں؟کس سے کہیں؟ان ماؤں کی فریاد کون سنے گا جن کے مغوی،گم شدہ معصوم بیٹوں کو آدھی رات کے گیدڑ محفوظ گاڑیوں میں لا تے ہیں اور دشت گرد قرار دے کر قتل کر دیتے ہیں
جب کہ وہ مغوی مقتول تو وہی ہیں جن کے لیے سسئی جیسی ماؤں نے پنہوں بن کر انہیں تلاشا ہے
زمانہ جھوٹا ہو سکتا ہے۔باتیں جھوٹی ہو سکتی ہیں پر کیا وہ نین بھی جھوٹے ہیں جو برس رہے ہیں؟
کیا وہ پیر بھی جھوٹے ہیں جن پیروں نے اپنے سے بڑھ کر سفر کیے ہیں
کیا وہ دوپٹے بھی جھوٹے ہیں جو ان کے سروں کی گواہی دے رہے ہیں کہ
ان مظلوم ماؤں کے یہ مظلوم بیٹے ہیں
کیا وہ میلی مانگ بھی جھوٹ کہہ رہی ہے جو جس مانگ میں سفر کی دھول اب بھی موجود ہے
کیا وہ آنکھیں جھوٹ کہہ رہی ہیں جن آنکھوں میں مایوسی کا ماتم سفر کے درد اور آنسوؤں کا گیلا پن اب بھی موجود ہے!
کیا وہ جوتیاں جھوٹ کہہ رہی ہیں جن جوتیوں پر بس سفر کی دھول نہیں
پر سفر کا درد بھی ہے
تو پھر کیوں مسکین ماؤں کے مظلوم بیٹوں کورات کی تاریکی میں قتل کرتے ہو؟
جب گولی چلتی ہے اور مسکین ماں کا گم شدہ مغوی بیٹا قتل ہوتا ہے
تو چاند شرم سار ہوتا ہے
اور پہاڑوں کے پیچھے چھپ جاتا ہے
جب مسکین ماں کا مظلوم بیٹا قتل ہوتا ہے
تو سورج صبح نہ نکلنے کی دعا کرتا ہے
پر مائیں بھی مصلوب ہو تی ہیں
اور سورج بھی مصلوب ہوتا ہے
جب کوئی گم شدہ ہوتا ہے تو پھر بھی
پیا ملن کی آس باقی رہتی ہے
پر جب کوئی رات کی تاریکی میں گولی کھا کر گرے
تو کیسی پیا ملن کی آس؟
وہ مائیں پہلے ہی جدائی کی راتیں جی رہی ہو تی ہیں
اب تو جدائی کی نہیں پر ماتم کی راتی ہیں
ماتم کی راتیں
”آہ!شپاں ماتم ءِ“


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں