کوئٹہ: افغانستان کے بدلتے حالات عالمی سامراجوں کا ایک اور کھیل ہے، مقررین کا سیمینار سے خطاب

215

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے کوئٹہ پریس کلب میں افغانستان کے بدلتے حالات اور بلوچستان پر اس کے اثرات کے عنوان پر ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس میں کثیر تعداد میں سیاسی کارکنان اور علمی و ادبی لوگوں نے شرکت کی ۔

پروگرام کا آغاز جنگ زدہ افغانستان کے عوام کے یاد میں دو منٹ کی خاموشی سے کیا گیا اور جنگ سے بدحال افغانستان کے عوام سے اظہار یکجہتی کیا گیا۔

مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا افغانستان کے بدلتے حالات ایک مرتبہ پھر عالمی طاقتوں کا شاخسانہ ہے۔ افغانستان کے حالات ایک مرتبہ پھر انسانی بحران کا سبب بنتے جا رہے ہیں افغان عوام اب جنگ سے تھک چکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ گذشتہ چالیس سالوں سے وہ جنگ میں ہے بلکہ یہ عالمی فنڈڈ جنگ ہے جس کا فائدہ عالمی سامراجوں کو ہو رہا ہے ۔جبکہ افغان عوام اس پورے جنگ میں صرف نقصانات کا سامنا کر رہی ہے۔

مقررین نے کہا کہ آج پشتون اور بلوچ کو یکجہتی کا مظاہرہ کرنا چاہیے جبکہ افغانستان میں حالات خراب ہوئے ہیں تو اس کے اثرات بلوچوں پر ہمیشہ پڑے ہیں۔

مقررین نے کہا کہ وقت بدل چکا ہے اور حالات بھی بدل چکے ہیں، بہت سی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہے مگر اس مرتبہ یہ ممکن نہیں ہے کہ افغان حکومت کو آسانی سے حکومت کو ختم کرکے طالبان کے حوالے کریں، عین ممکن ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ شدید جنگ کریں اور انہیں کابل تک قبضہ کرنے سے روک دیں پہلے طالبان گوریلا جنگ کر رہا تھا اب یہ ہوسکتا ہے کہ طالبان کے خلاف افغان حکومت جارحانہ راستہ اختیار کریں اور انہیں کابل تک قبضہ کرنے سے روکیں جس سے پھر سے ایک سنگین جنگ کا آغاز ہو سکتا ہے۔

بی این پی کے رہنماء حاجی لشکری رئیسانی نے کہا کہ اس اہم پروگرام کو منعقد کرنے پر میں بی وائی سی کے منتظمین کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ اس اہم معاملے پر ایسے پروقار پروگرام کا انعقاد کیا اور تعلیم یافتہ طبقے کو یکجاہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ یہاں سے ایک بحث کا آغاز کرنا چاہیے جس کا سلسلہ جاری رہے کیونکہ افغانستان کے بدلتے حالات بلوچستان سمیت اس پورے خطے کے حالات بدل سکتے ہیں جس سے ممکنہ نئی جنگ کا آغاز ہو سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر ملک کے سیاسی جماعتوں کو بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں آل پارٹیز کانفرنس بلانی چاہیے تاکہ سیاسی جماعتیں اپنا ایک سیاسی بیانیہ اور پروگرام مرتب کر سکیں مگر بدقسمتی سے قومی سلامتی اجلاس بلایا گیا جس میں سیاسی جماعتوں نے اسٹیبلشمنٹ کو پروگرام دینے کی بجائے انہیں ایک دو بندے کی طرف سے رسمی طور پر بریف دیا گیا جس سے ہماری غیر سنجیدگی واضح ہو جاتی ہے ۔

پروگرام سے ساجد ترین ایڈووکیٹ نے کہا کہ پشتون اور بلوچوں کو متحد ہوکر ان حالات کا مقابلہ کرنا چاہیے جس طرح انہوں نے بانک کریمہ اور عثمان کاکڑ کی شہادت پر یکجہتی کا مظاہرہ کیا ان حالات میں بھی اسی طرح کی یکجہتی کی ضرورت ہے ۔

مقررین نے کہا کہ چین کی حالیہ ون بیلٹ ون روڈ کی وجہ سے اس خطے میں یہ تبدیلیاں رونماء ہو رہی ہے اور چین بھی اس تمام پروسیس میں حصہ دار ہے امریکہ بظاہر تو اس جنگ سے انخلاء کر رہا ہے مگر یہ قطعاً ممکن نہیں کہ امریکا اپنے مفادات کو پیچھے چھوڑ کر افغانستان سے چلا جائیں بلکہ وہ اس پورے خطے میں ایک غیر یقینی کیفیت پیدا کر رہی ہے جس سے پھر سے ممکنہ طور پر خطے میں خونریزی اور عالمی جنگ کا آغاز ہوگا ۔

ان حالات میں جب جنگ ہو رہی ہو تو ان علاقوں میں سرمایہ کاری ممکن نہیں کیونکہ اگر طالبان کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو انہیں بنانے اور انہیں سویت یونین کے خلاف جہاد کرنے میں سب سے زیادہ امریکہ نے مدد و کمک کیا اب یہ کیسے ممکن ہے کہ امریکہ افغانستان میں اپنے مفادات کو چھوڑ کر یوں خالی ہاتھ لوٹ جائے اس نئے پوری صفت بندی میں امریکا کا کردار ہے۔

مقررین نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان امریکہ کی لوبی چھوڑ کر چین کی طرف جا رہا ہے مگر یہ کسی بھی طرح ممکن نہیں ہے کہ پاکستان امریکہ کے مفادات کے خلاف کوئی کام کرے بلکہ افغانستان امریکہ کا بلاک کسی بھی صورت نہیں چھوڑے گا جس کے معاشی سیاسی اور ہر طرح کے مفادات امریکہ کے ساتھ جڑے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان کے حالیہ جنگ کے بعد ایک مرتبہ پھر مہاجرین بڑی تعداد میں بلوچستان کا رخ کریں گے اور یہاں تنگ حالات میں جینے پر مجبور ہو جائیں گے کیونکہ گذشتہ وقت میں بھی یہی ہوا ہے کہ افغان مہاجرین کی بڑی تعداد جنگی حالات میں یہاں پر آکر رہنے پر مجبور ہوئی ہے عین ممکن ہے کہ اس مرتبہ مزید بڑی تعدادمیں افغانستان سے مہاجرین بلوچستان کا رخ کریں۔

پروگرام کے اختتام میں بی وائی سی کی جانب سے آئے ہوئے تمام خواتین و حضرات اور مہمانان کا شکریہ ادا کیا گیا۔