ٹوکن اور اسٹیکر سسٹم کے خلاف پنجگور میں احتجاج، آزادانہ کاروبار کا مطالبہ

382

پاکستان ایران بارڈر کی سختی تیل بردار چھوٹے زمباد اور دوہزار گاڑیوں پر ٹوکن اور اسٹیکر سسٹم مسلط کرنے کے خلاف آل پارٹیز شہری ایکشن کمیٹی، انجمن تاجران کمیٹی، ٹریڈ یونینز زمباد اور دو ہزاری یونین گیرج آٹوز یونین کے علاوہ مزدور اور محنت کشوں پر مشتمل ہزاروں افراد نے آج پنجگور میں پرامن ریلی نکالی۔

ریلی چتکان مین بازار سے ہوتے ہوئے مختلف شاہراہوں پر گشت کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر آفس کے باہر آکر پرامن دھرنا دیا اور ٹوکن اسٹیکر سسٹم ختم کرنے اور پاکستان ایران سرحد پر آزادانہ کاروبار کرنے کے مواقع فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔

ریلی کے شرکا نے ٹوکن اسٹیکر سسٹم اور بارڈر بندش کے خلاف پلے کارڈز اور بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر حکومت سے باعزت روزگار فراہم کرنے کے مطالبات درج تھے۔

احتجاجی جلسے کے نظامت کے فرائض جے یو آئی کے مولانا ولی ساسولی اور بی این پی کے علی جان بلوچ نے سر انجام دیے، ریلی اور احتجاجی دھرنے کی قیادت آل پارٹیز شہری ایکشن کمیثی کے چیئرمین اور بی این پی کے مرکزی جوائنٹ سکیرٹری میر نزیر احمد بلوچ آل پاٹیز کے سابق چیئرمین جے یو آئی کے ضلعی امیر حافظ محمد اعظم بلوچ آل پاٹیز کے وائس چیئرمین اور مسلم لیگ ن کے ڈویزنل صدر اشرف ساگر نیشنل پارٹی کے ضلعی صدر حاجی صالح ٹرانسپورٹ یونین کر صدر آغا شاہ حسین بلوچ انجمن تاجران کمیٹی کے صدر حاجی خلیل احمد دھانی زمباد اور دو ہزاری یونین کے جنرل سیکریٹری سیف اللہ سیفی، بی این پی کے صدر کفایت اللہ بلوچ، جماعت اسلامی کے ضلعی امیر حافظ صفی اللہ بلوچ، گیراج اور اٹوز یونین کے صدر حاجی دادی بلوچ مارس فاونڈیشن کے صدر حاجی عبدالعز بلوچ انسداد منیشات کے صدر حاجی افتخار بلوچ سنگت فاونڈیشن کے صدر چیئرمین شعیب بلوچ نے کی۔

شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے مقرریں نےکہا کہ پاکستان ایران بارڈر سے مکران کے عوام کے خونی اور خاندانی رشتوں کے ساتھ روزگار کے ذرائع بھی وابستہ ہیں، بارڈر پر پابندی اور نت نئے حربے دراصل حکومتی سہولت نہیں بلکہ مکران بلخصوص پنجگور کے عوام کے معاشی قتل عام اور یہاں کے باسیوں کو بھوک افلاس تنگ دستی کا شکار بنا کر بلوچ قوم کی نسل کشی کے مترادف ہے

مقرریں نے کہا کہ پاک ایران بارڈر سے ہزاروں افراد محنت مزدوری کرکے گھر بارچلا کر اپنے بچوں اور خاندان کے تعلیمی معاشی ضروریات پورے کرتے ہیں اور زراعت بھی ایران بارڈر کا محتاج ہے بلکہ یہ کہنے میں حق بجانب ہوگا کہ پاکستان ایران بارڈر پنجگور اور مکران سمیت پورے بلوچستان کے عوام کی موت اور زیست کا سوال ہے

انہوں نے کہا کہ پاکستان ایران بارڈر کے علاوہ ہمارے پاس کوئی متبادل راستہ نہیں ہے پاکستان کے چاروں اطراف میں ہمسایہ ممالک کی سرحدیں واقع ہیں وہاں عوام کو ہر قسم کی سہولت باآسانی دستاب ہیں لیکن بلوچستان بلخصوص مکران کے ساتھ حکومتی پالیسیاں عوامی خواہشیات کے برعکس ہیں روز اول سے بلوچ قوم کے خلاف حکومتی امتیازی سلوک جاری ہے ریاست کی طرف سے سہولت اور عوامی فلاح و بہود دور کی بات باعث مجبوری اپنے لئے روزگار کے ذرائع تلاش کرنے کے باوجود روزگار کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نے مکران ڈویژن کا دو مرتبہ دورہ کیا وہ مکران کے عوام کو پیکج دینے کی بجائے الٹا ایرانی بارڈر کو بند کرنے کا سبب بنا اور ان کے جانے کے بعد ایرانی بجلی بند کرکے مکران کو تاریکی میں ڈبا دیا گیا۔

انہوں نے کہا اس سے قبل مکران میں قتل عام کے ذریعے ہمیں ختم کرنے کی کوشش کی گئی اب ایرانی بارڈر پر پابندی لگا کر بلوچوں کے معاشی قتل عام کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے جو پنجگور اور مکران کے عوام کو قبول نہیں ہے بلوچ حلال روزی اور محنت مزدوری سے جینا کا حق چاہتے ہیں ہم کوئی دہشت گرد یا تخریب کار نہیں ہیں دوسرے اقوام اور صوبوں کے ساتھ ہم بھی محب وطن پاکستانی ہیں ہمیں بھی بطور پاکستانی اور محب وطن تسلیم کیا جائے

انہوں نے کہا کہ پنجگور کے عوام کو پاکستان ایران سرحد پر پابندی اور چھوٹے گاڑیوں پر اسٹیکر اور ٹوکن سسٹم ہر گز قبول نہیں ہے پہلے کی طرح ہمیں آزادانہ ماحول میں کاروبار کرنے دیا جائے ہمارا مطالبہ ہے کہ فوری طور پر پاکستان ایران سرحد پر پابندی ختم کرکے ٹوکن اور اسٹیکر سسٹم کو ختم کیا جائے ہم باعزت شہری ہیں اپنی تذلیل اور بے عزتی برداشت نہیں کرینگے حکومت نے پاکستان ایران سرحد پر باڈ لگا کر خونی رشتوں سے منسلک خاندانوں کو قید خانے میں تبدیل کردیا ہے

انہوں نے کہا اگر ہمارے مطالبات تسلیم نہیں کئے گئے تو عید کے بعد عوام کے ساتھ مل کر اس سے بھی بڑا احتجاج کرینگے۔