بلوچستان میں برسرپیکار جہد کار جلا وطن بلوچ رہنماؤں کے زیر اثر نہیں ہیں – انور ساجدی

1224

پیر کو بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر کے دورے کے موقع پر عمائدین سے خطاب میں وزیراعظم پاکستان عمران خان کا کہنا تھا ’میں ویسے بھی ان (بلوچ عسکریت پسندوں) سے بات کرنے کا سوچ رہا ہوں۔ ہوسکتا ہے کہ ان کی کوئی پرانی رنجشیں ہوں یا یہ دوسرے ملکوں کے لیے استعمال ہو رہے ہوں یا انڈیا ان کو انتشار پھیلانے کے لیے استعمال کرتا ہو لیکن اب تو وہ حالات نہیں۔‘

کوئٹہ کے مقامی اخبار کے مدیر اور سینئر تجزیہ کار انور ساجدی نے اس حوالے سے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے حکومت میں آنے کے بعد پہلی بار بلوچستان میں مزاحمت کاروں سے مذاکرات کا عندیہ دیا ہے۔ اقتدار میں آنے سے پہلے وہ بلوچستان اور فاٹا کے مسائل کو بھی مذاکرات سے حل کرنے کی باتیں کرتے تھے مگرانہوں نے فاٹا میں بھی مذاکرات کی کوششیں نہیں کیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’شاید موجودہ حکومت کو افغانستان کی بگڑتی ہوئی صورتحال دیکھتے ہوئے اندیشہ ہے کہ بلوچستان میں بھی بے چینی اور شورش میں اضافہ نہ ہو جائے۔ مذاکرات کی نئی کوششیں شروع ہو سکتی ہیں مگر میرا نہیں خیال کہ اس کا کوئی نتیجہ نکلے گا۔‘
انور ساجدی کے مطابق مذاکرات کی کامیابی کے امکانات اس لیے نہیں ہیں کہ پہاڑوں پر موجود مسلح افراد جلا وطن بلوچ رہنماؤں کے اثر میں نہیں ہیں۔

’پہاڑوں پر موجود بلوچ کہتے ہیں کہ بلوچستان کا مسئلہ کسی فنڈ یا ترقی کا نہیں بلکہ شناخت اور تشخص کا ہے جبکہ حکومت اس پر بات نہیں کرتی۔ یہ معاملہ اس وقت اس لیے بھی طے نہیں ہو سکتا کیونکہ دونوں فریق انتہا پر ہیں۔ جب تک اصل مسئلے کو نہیں دیکھا جاتا، یہ محض کوششیں ہوں گی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ڈاکٹرعبدالمالک کے دور میں بھی مذاکرات کی کوششیں ہوئی تھیں مگر اس وقت اسٹیبلشمنٹ نے یہ فیصلہ کیا تھا جو ہمارا (طاقت کے استعمال کا ) پلان ہے وہ زیادہ موثر ثابت ہوگا اس لیے انہوں نے یہ کوششیں ترک کر دیں۔