ہائے زندان میں بھی کیا لوگ تھے – غنی بلوچ 

186

ہائے زندان میں بھی کیا لوگ تھے

 تحریر : غنی بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

کچھ عجب بوئے نفس آتی ہے دیواروں سے
ہائے زندان میں بھی کیا لوگ تھے ہم سے پہلے

” انقلاب خونریز فساد کا ہی نام نہیں اور نہ ہی اس میں کسی انفرادی شخصیت کے قتل کی کوئی گنجائش موجود ہے. اسے پستول یا بم کی رسم نہ سمجھا جائے. انقلاب سے ہماری مراد یہ ہے کہ ناانصافی پر مبنی موجودہ نظام کو تبدیل ہونا چاہئے. سامراجی یہ جان لیں کہ افراد کو کچلنے سے نظریات ختم نہیں کیے جا سکتے اور دو غیر اہم اکائیوں کو ختم کرنے سے پوری قوم ختم نہیں ہو جاتی. ہم اس تاریخی سبق پر زور دینا چاہتے ہیں کہ بسٹل کا قید خانہ فرانسیسی انقلابی تحریک کو کچلنے میں ناکام رہا. پھانسی کے پھندے اور سائبیریا کی کانیں روسی انقلاب کا راستہ نہ روک سکیں اور بلڈی سنڈے جیسے واقعات آئرلینڈ کی تحریک آذادی کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکے. ”
( بھگت سنگھ)

بلوچستان میں ہر سال 8 جون کو لاپتہ افراد سے منسوب کرکے اس دن تمام لاپتہ افراد کو یاد کرکے ان کے حق میں بولا جاتا ہے. آخر یہ کون لوگ ہیں جن کو یاد کرنے کیلئے ایک مخصوص دن مقرر کرنا پڑا؟ جن کیلئے پوری دنیا کے کونے کونے سے لوگ آواز اٹھا رہے ہیں. کس مقصد کیلئے انہوں نے اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر دشمن کے زندانوں میں قید ہیں؟ آخر کیوں باقی لوگوں کو ان سے اس قدر ہمدردی اور محبت کیسے ہو گئی؟

یہ دن ان زندہ دلاں لوگوں کی داستانوں کو اجاگر کرنے کا ہے جہنوں نے آذادی اور سرزمین کے پرچم کو تھامے رکھنے کا عہد کیا تھا.
یہ دن ان جانبازوں کے حق کا تذکرہ ہے 1947 سے پہلے انگریز سامراج سے پاکستانی استعماریت کی تشدد کی پرخار راہوں سے گزر کر قوم پرستی کے منزل تک پہنچے ہیں. خطر پسندی ان کے قدم چھومتی ہے. خوف و ہراس ان کے سائے سے بھی گریز کرتا ہے .

یہ دن اس شخص کے نام جس نے اپنی جرات اور استقامت سے جبر اور تشدد کو بھی شرماتا رہا ہے. یہ دن اس شخص کے نام جس نے اپنی تلخ اور شیریں باتوں کو دشمن اور سامراج سے نفرت کی چھکی میں پیس ہمارے قومی وجود کو نیا شعور عطا کیا.
یہ دن ان لوگوں کے نام جنہوں نے اپنے سوز یقین سے لاکھوں محباں وطن کے سینے روشنائی کیے. ان تمام لاپتہ افراد جن کے لئے یہ منایا جاتا ہے ان انقلابیوں کے رہبر کا نام زاکر مجید ہے. جس شخص نے ان انقلابیوں کو ریاست کے ٹارچر سیلوں میں ہمت اور جرات روشناس کروایا اسے زاہد بلوچ کہتے ہیں.

ابھی چراغ سر رہ کو کچھ خبر ہی نہیں
ابھی گرانیٔ شب میں کمی نہیں آئی

نجات دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
(فیض احمد فیض)


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں