چین کےبڑھتے عالمی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لئے جی سیون رہنماء متفق

301

جی سیون رہنماؤں نے ترقی پذیر ممالک میں انفراسٹرکچر کی تعمیر کے حوالے سے سرمایہ کاری کے ایک ایسے منصوبے پر اتفاق کر لیا ہے جس کا مقصد چین کے بڑھتے عالمی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنا ہے۔

جی سیون سربراہ اجلاس پر وائٹ ہاؤس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن اور دیگر رہنماؤں نے کورنوال سمٹ کے دوران چین کے خلاف سٹریٹیجک مقابلے کے موضوع پر بات چیت کی ہے جس کے بعد ‘بیلڈ بیک بیٹر ورلڈ یا بی تھری ڈبلیو’ یعنی عالمی سطح پر تعمیر نو کے ایک نئے منصوبے پر رضامندی ظاہر کی گئی ہے۔

بیان کے مطابق ‘اس شفاف شراکت داری میں’ ترقی یافتہ جمہوری ممالک 400 کھرب ڈالر کی سرمایہ کاری سے کووڈ 19 سے متاثرہ ترقی پذیر دنیا میں انفراسٹرکچر تعمیر کریں گے۔

خیال رہے کہ بیجنگ نے دنیا کے کئی ممالک میں بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے تحت اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس کے ذریعے چین نے ترقی پذیر اور غریب ممالک کو مقروض کیا ہے اور وہ یہ قرض واپس نہیں کر سکیں گے۔

امریکہ اور اس کے اتحادی چین پر سنکیانگ صوبے میں جبری مشقت اور دیگر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا بھی الزام عائد کرتے ہیں۔

بائیڈن چین کے خلاف اتحاد کے لیے متحرک

امریکی صدر کے ایک معاون نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ بائیڈن جی سیون اجلاس کے دوسرے روز مغربی ممالک سے کہیں گے کہ وہ چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے اقدامات کریں۔

برطانیہ میں ہونے والے اس سربراہ اجلاس میں توقع ہے کہ صدر بائیڈن ترقی پذیر ممالک کے انفراسٹرکچر یعنی ڈھانچے میں چین کی سرمایہ کاری کے خلاف نیا اتحاد تشکیل دیں۔

جی سیون میں امریکہ، کینیڈا، برطانیہ، فرانس، جرمی، اٹلی اور جاپان شامل ہیں۔ جی سیون ممالک عالمگیر وبائیں روکنے کے لیے بھی ایک نئے پلان کا اعلان کریں گے۔ ان میں ویکسین کی تیاری کے وقت اور کووڈ 19 کے علاج کو سو دن سے کم کرنے جیسے اقدامات شامل ہیں۔

برطانوی ساحلی قصبے کورنوال کے علاقے کاربِس میں ہونے والے اس اجلاس کی میزبانی برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن کر رہے ہیں۔

چین کے مقابلے کے لیے امریکی پلان

بی بی سی نارتھ امریکہ کے ایڈیٹر جان سوپل کا کہنا ہے کہ امریکی سنیچر کے سیشن کو ایک ایسا موقع سمجھتے ہیں جس پر وہ دنیا بھر میں چین کے پھیلتے ہوئے اثر کو چیلنج کریں گے۔ مغربی جمہوریتیں بیجنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا، جس کے تحت ترقی پذیر ممالک میں اربوں ڈالر خرچ کیے جا رہے ہیں، مقابلہ کرنا چاہتی ہیں۔

امریکی انتظامیہ کے اعلیٰ حکام یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ مغربی اقدار غالب آ سکتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چینی سرمایہ کی بہت زیادہ قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے، اور یہ کہ سنکیانگ میں اقلیت سے جبری مشقت لینا غیر اخلاقی ہے، اور یہ معاشی طور پر ناقابلِ قبول ہے کیونکہ یہ مساویانہ مقابلے سے روکتا ہے۔

جو بائیڈن اصرار کریں گے کہ عالمی پیمانے پر تجارت جبری مشقت سے پاک ہونی چاہیے۔ امریکی حکام کہتے ہیں کہ یہ صرف چین کے مقابلے کی بات نہیں بلکہ دنیا کے سامنے ایک مثبت متبادل پیش کرنا ہے۔

تاہم امریکی انتظامیہ اس بارے میں کھل کر کوئی بات نہیں کرتی کہ عالمی انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے کے لیے مغرب کتنی رقم خرچ کرنے کو تیار ہے۔ صرف یہ ہی بات واضح ہے کہ چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کے مقابلے کے لیے مغربی طاقتوں کے اندر ایک نیا عزم پیدا ہو گیا ہے۔

مغربی طاقتوں نے چین کے بارے میں اب تک کیا کیا ہے؟

رواں سال کے اوائل میں امریکہ، یورپی یونین، برطانیہ اور کینیڈا نے چین کے خلاف مل کر مختلف پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ ان میں سنکیانگ میں اویغور مسلمانوں کے انسانی حقوق کی پامالی کرنے والے افسران کے خلاف سفری پابندیاں، اور ان کے بینک اکاؤنٹ منجمد کرنا شامل ہے۔

اندازہ ہے کہ اس شمال مغربی صوبے میں اویغور اور دوسری اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے ایک ملین سے زیادہ افراد کو حراستی کیمپوں میں رکھا گیا ہے۔

چینی حکومت پر اویغور خواتین کو زبردستی بانجھ بنانے اور بچوں کو والدین سے الگ کرنے کا الزام ہے۔

بی بی سی نے فروری میں ایک تحقیقاتی رپورٹ جاری کی تھی جس میں حراست میں موجود ان لوگوں کے بیان شامل تھے جنھیں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ریپ، جنسی ہراسانی اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

چین نے اپنے خلاف لگنے والی پابندیوں کے جواب میں یورپی حکام پر پابندیاں عائد کر دی تھیں۔

جی سیون کا کووڈ پلان کیا ہے؟

جی سیون سنیچر کو ‘کاربِس بے ڈیکلریشن’ جاری کریں گے۔ اس کا مقصد کووڈ 19 سے ہونے والی انسانی اور معاشی تباہی کا سدِباب ہے۔ امریکہ کی جان ہاپکنز یونیورسٹی کے مطابق وبا پھوٹنے کے بعد سے اب تک عالمی سطح پر ساڑھے سترہ کروڑ سے زیادہ افراد اس سے متاثر ہوئے ہیں جبکہ سینتیس لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

جی سیون ڈیکلریشن میں کئی اقدامات شامل ہوں گے۔

ویکسین بنانے اور ان کی منظوری کے لیے درکار وقت کم کرنا، مستقبل میں بیماری کی تشخیص اور علاج کے دورانیے کو سو دن سے گھٹانا

عالمی نگرانی کے نظاموں اور جینومِک سِکوینسنگ (جینیاتی خاکے تیار کرنے کی) استعداد کو مضبوط کرنا

عالمی ادارۂ صحت میں اصلاحات اور اسے توانا بنانے میں مدد دینا

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اینٹونیو گٹاریس اور عالمی ادارۂ صحت کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ٹیڈروس گیبرے یاسس بھی سنیچر کے اجلاس میں شرکت کریں گے۔

ڈاکٹر ٹیڈروس کا کہنا ہے کہ ‘دنیا میں وباؤں اور عالمی وباؤں کے خطرات سے نمٹنے کے لیے نگرانی کے ایک طاقتور نظام کی ضرورت ہے۔’