عشق سلامت، سندھ سلامت – محمد خان داؤد

145

عشق سلامت، سندھ سلامت

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

قدیم دور کے شاستروں میں لکھا ہوا ہے
”متھرا جل رہا ہے،پر میں تو زندہ ہوں،میں پھر سے متھرا کو جوڑ سکتا ہوں بنا سکتا ہوں!“
سندھ کی مٹی میں،سندھیت بھی زندہ ہے اور عشق بھی زندہ ہے
اگر ایک کوئی متھرا جل جاتا ہے تو سندھ اور عشق کسی دوسرے متھرا کو جوڑ لیتے ہیں بنا لیتے ہیں
سندھ دھرتی میں کتنے ہی متھرا سندھ کے عشق میں جل کر خاکستر ہوئے ان کے اتنے نام ہیں کہ وہ نام نہ تو میں یہاں لکھ سکتا ہوں اور نہ ہی یہاں پر وہ نام سما سکتے ہیں۔پر تاریخ،سندھ اور عشق گواہ ہیں کہ سندھ کے نام پر کتنے متھرا جلے اور بعد میں سندھ نے اور کتنے متھرا جوڑے اور تیار کیے۔

کیوں کہ متھراؤں کو تو موت آ سکتی ہے، وہ جل سکتے ہیں، وہ خاکستر ہو سکتے ہیں، ان کی خاک ہوا میں تحلیل ہو سکتی ہے، وہ خوشبو بن کر اُڑ سکتے ہیں، وہ لہو بن کر خشک ہو سکتے ہیں، وہ مٹی میں دفن ہو سکتے ہیں، وہ سولی سزا وار ہو سکتے ہیں،ان کو گولی گھائل کر سکتی ہے، انہیں زہر دیا جا سکتاہے،وہ آگ کے شعلوں میں لپٹ سکتے ہیں۔وہ سازشوں کا شکار ہو سکتے ہیں۔ان کی ریکی کی جا سکتی ہے۔ان کی مکبری کی جا سکتی ہے۔ان کے گلوں میں پھانسی کے پھندے اور ان کے جسموں کو بارود سے اُڑیا جا سکتا ہے۔ان کے وجودوں کو گولی سے گھائل کیا جا سکتا ہے،انہیں مٹایا جا سکتا ہے، ان کے گھروں پر بندوق بردار چھاپا مار سکتے ہیں، ان کے نازک نحیف جسموں پر وحشیانہ تشدد کیا جا سکتا ہے، انہیں ٹارچر سیلوں میں رکھا جا سکتا ہے۔انہیں بند دروازوں کے پیچھے دھکیلا جا سکتا ہے۔ ان کی زبانیں کاٹی جا سکتی ہیں، ان کے جسموں پر سگریٹوں اور ڈرل مشینوں سے سوراخ کیے جا سکتے ہیں۔ انہیں ٹارچر سیلوں میں محبوبہ، ماں اور دیس کی گالی دی جاسکتی ہے۔ ان کے جسموں سے کپڑے اتارے جا سکتے ہیں، ان کے ننگے پن کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ ان کے لبوں کو بجلی کے پلاس سے نوچہ جا سکتا ہے، ان کے ناخنوں کو نکالا جا سکتا ہے۔ بند کوٹھیوں میں۔۔۔۔۔زندہ باد اور سندھ مردہ باد کے نعرہ لگائے جا سکتے ہیں۔ بندوق کے زور پر ان کی زبانوں سے بہت سے اقرار اور قول لیے جا سکتے ہیں۔ ان ہی کی پسینے سے شرابور قمیضوں سے ان کے چہرے ڈھانپے جا سکتے ہیں۔ انہیں ماں کی گالی اور چہرے پر تشدد کیا جا سکتا ہے۔ ان کے سامنے بہت سے تشدد کے بعد ان سے وہ سب کچھ کہلاوایا جا سکتا ہے
جو انہوں نے خواب و خیال میں بھی نہیں کیا
ان کے جسموں کو جلتے سگریٹوں سے داغا جا سکتا ہے۔
انہیں بھوکا پیاسا رکھا جا سکتا ہے
انہیں ڈیڑھ فٹ بند کھولی میں قید رکھا جا سکتا ہے
ان کے جسموں پر۔۔۔۔۔۔۔کا نقشہ بنایا جاسکتا ہے
انہیں ماں کے یار کی گالی دی جا سکتی ہے
اور پھر تنگ آکر ان کے جسموں کو رات کی تاریخی میں بارود سے اُڑایا جا سکتا ہے۔رات کے آخری پہروں میں ان کو بڑی گاڑیوں میں بھر کر ویرانوں میں قتل کیا جا سکتا ہے
وہ جو عشق اور سندھ سے جُڑے ہوئے ہیں
انہیں“را“ سے جوڑا جا سکتا ہے
وہ جو زندگی سے جڑے ہوئے ہیں انہیں موت سے جوڑا جا سکتا ہے
وہ جو دھرتی پر محبت سے چلتے ہیں انہیں تاریک اور اندھری قبروں میں جھونکا جا سکتا ہے
وہ جو سرا سر محبت ہیں وہ سازشوں کا شکار ہو سکتے ہیں
وہ جو عشاق ہیں۔اور آزادی کے سفر کے شاید پہلے اور آخری مسافر!
ان آزادی کے مسافروں کو رات کی تاریکی میں چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کر کے اُٹھایا جا سکتا ہے،انہیں گم کیا جا سکتا ہے۔سندھ کے بیٹوں کو سندھ میں ہی رولہ جا سکتا ہے۔
وہ سب کچھ کر رہے ہیں جلا بھی رہے ہیں اور قتل بھی کر رہے ہیں
جلتے تو متھرا ہیں اور قتل بھی متھرا ہو تے ہیں
پر وہ اس کا کیا کریں گے جو ابھی ”زندہ!“ ہے
اور پھر کسی متھرا کو زندہ کر دے گا۔بنا دے گا۔جوڑ دیگا اور پھر سے وہ شعلہ بھڑک اُٹھے گا
جو آزادی اور محبت کا شعلہ ہے
وہ کون ہے؟
وہ سندھ اور عشق ہے
جو سب کو بنا رہا ہے۔بنا بنا کے بجھا رہا ہے۔بجھا بجھا کے جلا رہا ہے۔جلا جلا کے بجھا رہا ہے۔کیوں کہ وہ آپ کوئی متھرا نہیں کہ پھانسی چڑھ جائے۔سولی سزا وار بن جائے۔گولی کھا جائے۔زہر پی لے اس کے جسم پر تشدد کیا جائے۔اندھیری کوٹھڑیوں میں اس پر بہت سا تشدد کیا جائے۔اس کے ناخن نکال دیے جائیں۔اس کا چہرہ مسخ کیا جائے۔اس کے ہاتھ پشت سے باندھ لیے جائیں۔اس کی قمیض سے اسی کے چہرے کو ڈھانپ لیا جائے۔اسے ماں اور محبوبہ کی گالی دی جائے۔
نہیں وہ ایسا نہیں ہے
وہ ابھی زندہ ہے
تم نے بہت سے متھراؤں کو قتل کیا۔ان سے ان کی جوانیاں چھین لیں۔جوانی میں ہیں ان کی محبوبائیں ودوا ہوئیں۔مائیں روئیں۔بچیوں نے ماتم کیا۔
پر وہ زندہ ہے
اور زندہ تھا
وہ پھر کسی متھرا کو بنائے گا اور سندھ کے میدانوں اور پہاڑوں میں اتار دے گا
پھر تم کیا کرو گے؟
تم رات کی تاریکی میں ایک اور متھرا کو اپنے ساتھ لے گئے ہو نہیں معلوم تم اس کے ساتھ کیا رویہ رکھو؟
اسے ڈراؤ؟
اسے دھمکاؤ؟
اسے خوف زدہ کرو؟
ماں۔محبوبہ اور دیس کی گالی دو؟
اسے خوف زدہ کرو؟
کیا معلوم
پر اتنا جان لو وہ تو بس ایک متھرا ہے
بہت سے متھراؤں میں سے بس ایک متھرا
جب کہ سندھ اور عشق سلامت ہیں


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں