بی این ایم کو ایکسرے روم سے پھرنکالنے کا عندیہ مل گیا تحریر۔ سمیر جیئند بلوچ

447

جب جب بلوچ نیشنل موومنٹ کا نام لیا جائے گا، ان کے ساتھ جڑا ہوا عظیم نام واجہ غلام محمد شہید دوسرے شہد ا ، اور زندانوں میں بند یادگار نام ڈاکٹر دین محمد، غفور بلوچ سمیت سینکڑوں کارکنوں کا نام ذہن میں گونجنا شروع ہوگا۔ بی این ایم کے کراچی سے لیکر بلوچستان کے کونے کونے میں شیر کی طرح قابض ریاست کو للکارنے والے آزاد بلوچستان کے شفاف نعرے کانوں کو چیرتے ہوئے درودیوار میں ٹکراتے ہوئے چہچہاتے سنائی دے رہے ہوں گے۔ کسی نے وہم وگمان میں بھی نہیں سوچاہوگا کہ بی این ایم کی حالت ایک خوبصورت پرندے کی طرح قفس کی عادین ہوگی؟ نام تو وہی ہوگا، مگر ہرطرف سے ذاتی خواہشوں کے زنجیروں میں جکڑا ایک ایسا قیدی جو سلاخوں کے پیچھے اپنے آزادی کے دن گن رہاہوگا۔ جرم پوچھنے کے سوال پر زیر لب مسکراتے ہوئے دل ہی دل میں شکوہ کا منہ لئے یہ جواب دے رہا ہوگا کہ میں دشمن کے ہاتھوں اسیر نہیں جبکہ مجھے اپنے نادانوں نے ہی ماراہے۔ میں دشمن کے ہاتھو ں اسیر نہیں، اپنے ورکروں کے ہاتھوں اسیر ہوں ۔ وہ ورکر جو اپنا نام کمانے ہیروازم کے بھنور میں دھنس جانے کے سبب قومی مفاد، میرے وجود کا مقصد بھول چکے ہیں۔ وہ یہ بھول چکے ہیں کہ میں تو وہ ہوا، وہ خوشبو ہوں جو حجم نہیں رکھتا۔ نا ہی قیدی بن کر سلاخوں ، کسی ڈارک ایکسرے روم ، یا کسی کارہ گر کے اندر دیر تک مقید رہ سکتا ہوں بلکہ میں وہ لاوا ہوں جسے جتنا دبانے کی کوشش کیا جائے گا، وہ اسی شدت سے اپنے خطرناک شعلوں کے ساتھ باہر نکلنے کی جتن میں لگا رہے گا ۔ ان شعلوں اور آگ کو صرف اورصرف آئین کے راستے پر چل کر ہی ڈھونڈا جاسکتاہے نہ کہ جنرل باجوہ کی طرح ایک بند کمرے میں سرہلانے والوں سے ایکسٹیشن لیکر مبہم تاریخ پر تاریخ دیکر اسے حلال کہہ کر کھایاجاسکتاہے۔ وہ اسوقت بھول جاتے ہیں جسے وہ اس وقت حلال کہہ کر دسترخوان پر سجا کر کھانے کا سوچ رہے ہیں، وہ اندرہی اندر ایک خطرناک زہر بن کر مہمان کو خوش آمدید کہہ رہاہوتاہے ۔

قدرتی عالمی قوانین کے مطابق ہر چیز جس طرح اپنے مدار میں چکر لگاتا ہے، وہ ایک دوسرے کے سامنے نہیں آتے، اسی طرح آئین بھی اپنے مدار میں گھوم رہاہوتاہے ۔ اس کی جو حد مقرر کی گئی ہو تی ہے ، وہ اسی مدار میں گھومنے لگتاہے یا ہم کہہ سکتے ہیں کہ جو اشیائے خوردونوش یا مصنوعی چیز بنایاجاتاہے اس کی بھی ایک ایکسپائری ڈیٹ مقرر کی جاتی ہے۔ جب وہ ٹائم حد پار کرنے کا وقت آجاتاہے تو وہ خودبخود ٹوٹ جاتاہے یا گل سڑ جاتاہے ۔ اب وہ اپنا وہ مقام کھوجاتاہے، جس کا اس سے قبل اسکا مقام ہوتاتھا، اب وہ خوبصورت شیشہ والی الماری سے نکل کر محلے گلی کے ردی کے ٹوکری کا زینت بن جاتاہے ٹھیک اسی طرح آئینی مدت گذرنے کے بعد وہ منصب روح کی طرح اس شخص سے نکل کر کسی اور شخص میں منتقل ہوجاتاہے جو اس منصب کے یوگے ہوتاہے۔

بس یہی سرکل گھوم پھر کر بہار سے خزاں خزاں سے بہار بنتی رہتی ہے ، آبیاری کرنے پر وہ مالک کو میوہ پھل دینے کے قابل ہوجاتاہے، چڑی اور پکشیوں کا مسکن بن جاتاہے ۔ اگر آبیاری سالوں سال نہ کی جائے محض یہ کہاجائے بس اب اب منصوبہ بن گیا۔ اس بات سے وہ ہرابھرانہیں بلکہ ہر روز ایندھن بننے کے قابل بن جاتاہے۔ اگرایسے زبانی جمع خرچ کرنے والے مالی کی جگہ نیا ہونہار مالی کا انتخاب کیاجائے جو بستر پر کھانسنے کے بجائے ہروقت باغ ہی میں کھدال لئے کھڑا ہو تبھی وہ درخت پھر پھل دینے قابل بن جاتاہے۔

بی این ایم وہی درخت ہے جسے ستارہ اٹھارہ سال اگانے بعد چند ہی سالوں کے اندراندر مالی چھوڑ کر چلے گئے، ہم نے انکی جگہ مالی بھرتی کرنے بجائے محلے کے بزرگ اور بوڑھوں سمیت ان بیماروں کو پانی دینے کی ذمہ داری سونپی، جو خود پوتے پوتیوں کے رحم وکرم پر ہیں کہ وہ سہارادیکر اسکی جگہ پر کروٹ بدلنے میں سہارا دیں، اٹھنے بیٹھنے میں لاٹھی پکڑوادیں ۔

اب بھی وقت ہے باغ کو دوبارہ ہرابھرا کرنے کیلے نئے مالی بھرتی کریں، جو کسی پوتے پوتی یا ہمسایہ کے بچے جمال کمال کے انتطار کئے بغیر کھدال بیلچہ اٹھاکر باغیچہ میں گلاب،چنبیلیوں کے پودوں کی آبیاری کرسکتے ہوں ۔ ہمسایہ سے مدد مانگن کے قابل ہوں ، ان کے ہاتھ پاوں کھلے ہوں ۔ وہ اس فکر سے بھی آزاد ہوں کہ ہم کہیں بھی مہاجر نہیں، نا ہی ہمیں یہاں سے نکالے جانے کا خطرہ ہے، نا ہی ہم پر مسلح ہونے کالیبل چسپاں ہے ۔

امید قوی ہے اب بی این ایم کے روشنی کو مزید ایکسرے روم کے اندھیروں کے رحم کرم پر نہیں چھوڑا جائے گا بلکہ وہاں رکھا جائے گا جہاں اس کے روشنی کی قوم وطن آزاد بلوچستان کو ضرورت ہے ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں