اختر مینگل و مالک صاحب , کریمہ بھی اس سرزمین کی بیٹی تھی: شہے نوتک

615

 

اختر مینگل و مالک صاحب , کریمہ بھی اس سرزمین کی بیٹی تھی تحریر-شہے نوتک

دی بلوچستان پوسٹ

گزشتہ دنوں پشتوں قوم پرست رہنما لالہ عثمان کاکڑ ہم سے اچانک جدا ہوئے انکی موت کا سنا تو ہر حق پرست شخص کو دکھ پہنچا کیونکہ ان کا سیاسی عہد مظلوم قوموں کی ترجمانی اور محکوموں کے لئے جہدوجہد کرتے گزرا۔

بے شک یہ بلوچستان کی سیاست اور خاص طور پر پشتون قوم پرست قیادت میں کبھی نہ بھرنے والا خلا ثابت ہوگا ۔ لالہ عثمان کی سیاست اور محکوموں کی ترجمانی کے سنہرے عہد کو جتنا سراہا جائے کم ہوگا
اسی طرح ملکی و “صوبائی” سطح پر ان کے لئے سوگ کا اعلان کیا گیا
مگر دوسری جانب بلوچ “قوم پرست” جماعتوں کی جانب سے لالہ کے جسدخاکی کے اسقبال اور قدم قدم پر پھول برسانے کا اعلان کیا گیا
بے شک یہ اعلان بہت ہی اچھا فیصلہ تھا اور اس عمل سے مستقبل قریب میں بلوچ پشتون اتحاد کو بہت تقویت ملے گی مگر یہ عمل اپنے اندر کہیں گہرے سوال چھوڑ گیا۔

جب میں نے بلوچستان نیشل پارٹی اور نیشنل پارٹی کے یہ بیانات سنے کہ دونوں جماعتوں کی طرف سے لالہ عثمان کے جسدخاکی کو پورے قومی اعزاز کے ساتھ بلوچستان لایا جائے گا تو میں ایک گہری خاموشی میں چلا گیا۔

میری سوچیں مجھے شہید کریمہ بلوچ کی “لاپتہ میت ” کی طرف لے گئیں کہ جب بانک کریمہ کے جسدخاکی کو کراچی ائیرپورٹ سے لاپتہ کردیا گیا اور پھر شہید کی میت کو اغوا نما طریقے سے تمپ پہنچایا گیا اور جگہ جگہ فوج اور ایف سی کے دستے کھڑے کردیئے گئے
جنازے میں رکاوٹیں پیدا کی گئیں ۔۔
لوگوں کو گھروں سے نکلنے کی اجازت نہیں دی گئی
کیا یہ بانک کی میت کے ساتھ توہین نہیں تھی؟
کیا بانک کریمہ اس دھرتی کی بیٹی نہیں تھی ؟

یہ وہ سوال ہیں جو دونوں “قوم پرست ” جماعتوں کو دینے ہونگے
مگر ان سوالوں میں بابا خیر بخش مری کا وہ بیان یاد آتا ہے کہ جب ایک بار بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے بابا نے کہا تھا کہ “بلوچستان نیشل پارٹی اور نیشنل پارٹی کی قوم پرستی کی مجھے سمجھ نہیں آتی ایک جماعت کہتی ہے میں “بلوچستان” نیشنل پارٹی ہوں کوئی انہیں سمجھاے کہ زمینوں کی قومیت نہیں ہوتی ہاں البتہ انسانوں کی قومیت ہوتی ہے , دوسری جماعت کہتی ہے کہ میں ” نیشنل ” پارٹی ہوں بھائی آپ کس نشین کی “نیشنل” پارٹی ہیں ؟ آپ کس قومیت کی ترجمان ہیں؟ پاکستان کی؟ انسانوں کی؟ لوگوں کی؟ آپ کیا ہیں “؟

آج بابا کے یہی جواب یاد آئے تو ان “قوم پرستوں ” سے پوچھنے کا دل کیا کہ بی این پی یا نیشنل پارٹی کے لالہ کے لئے ابھرتے جذبات قابل تحسین ہیں بے شک وہ بھی اس سرزمین کے بیٹے تھے مگر تب ان جعلی قوم پرست جماعتوں کے جذبات مجروع کیوں نہیں ہوئے جب بانک کریمہ کے آبائی گاوں تمپ سمیت پورے کیچ پر کرفیو لگا دیا گیا؟
کیا اختر مینگل صاحب و ڈاکٹر مالک صاحباں تب آپ کی جماعتوں نے سوچا کہ قوم کی بیٹی کو اعزاز سے لایا جائے ؟ یا تب آپکے جذبات مجروع نہیں ہوئے جب بانک کریمہ کی قبر کو مسمار کیا گیا انکی قبر کی توہین کی گئی؟ جب بانک کی قبر پر فوجی تعینات کئے گئے؟ کیا آپ نے اس وقت کوئی بیان جاری کیا جب بانک کے حق میں ریلی نکالنے کے “جرم” میں نوجوانوں کو بھی لاپتہ کیا گیا؟ آپ بی این پی اور این پی تب کہاں تھی؟

اختر مینگل صاحب بتائیں تب پھول مہنگے تھے یا “واجہ” کی ناراضگی کا ڈر تھا؟


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں