عورت مارچ اس لیے کہ کوئی خلیل کسی ماروی کو گالی نہ دے – محمد خان داؤد

117

عورت مارچ اس لیے کہ کوئی خلیل کسی ماروی کو گالی نہ دے

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

یہ دستار و فضلیت والے، یہ جبہ و منبر والے، یہ چوڑے سروں پر کالی محراب سجانے والے
یہ کافرو! کافرو! کافرو! کافرو! کی رٹ لگانے والے، یہ فتوں کا بازار گرم کرنے والے، یہ سفید ریشوں کو رنگنے والے، یہ اپنے حرم میں کئی کئی لڑکیاں داخل کرنے والے، یہ مکتبوں، مدرسوں کا تقدس خراب کرنے والے، یہ دنیا میں ہی گلمان سے راتوں کو رنگین کرنے والے!
یہ چیختی، چلاتی تقاریر کرنے والے، یہ اسپیکروں پہ چیخنے والے، انہیں معلوم ہی نہیں ہو تا کہ برابر کے گھر میں کوئی بیمار ہے یا کوئی ماں اپنے کو یاد کر کے رو رہی ہے۔ان چیختے اسپیکروں کا شور سن کر ہی سندھ کے پاگل شاعر نے لکھا تھا کہ
،،اے موزن تھوڑا آہستہ
مسجد کے برابر میں
کسی مزدور کے بھوکے بچے
بڑی مشکل سے سوئے ہیں
اے موزن تھوڑا آہستہ،،

یہ ستار وفضلیت والے پوچھتے ہیں کہ یہ،،خواتین مارچ کیوں؟
میں ان سے کہنا چاہتا ہوں کہ،،یہ خواتین مارچ اس لیے کہ
اب کوئی فضلہ سرکی کو اغوا نہ کرے اور ا س کی ماں گذشتہ دس سالوں سے سندھ کے ویران روڈوں پر ذلیل نہ ہو۔ اب کوئی جوان بیٹا اپنی 80سالہ ماں پر کاری کا شک کر کے اس کا دھڑ سر سے جدا نہ کرے، اب کوئی وڈیرے کا بیٹا کسی ہاری کی بیٹی کی چھاتیوں پر بس اس لیے ہاتھ نہ ڈالے کہ وہ بہت غریب ہے اور اس کے پاس ایسے کپڑے نہیں کہ وہ اپنا سر اور چھاتی ڈھانپ سکے وہ سر ڈھانپتی ہے تو چھا تیاں کھل جاتی ہیں اور اگر چھاتیاں ڈھکتی ہیں تو سر!اب کسی کھیت میں رات کے وقت چیخ و پکار نہ ہو کہ کھیتوں میں کام کرنے والی کسی باگڑی کی جوان بچی کو بدمست وڈیرے کے کمدار اس لیے اس جھونپڑی سے اُٹھا لے گئے کہ وہ تیزی سے جوان ہو رہی تھی اور اس کی جوانی کی مہک اس وڈیرے کے لڑکے نے سونگ لی تھی۔
اب کوئی بس اس لیے قتل نہ ہو کہ اس نے دوستی رکھنے سے انکار کر دیا تھا اور اس نے اسے قتل کر دیا!
اب کسی کی سر کٹی لاش کسی سوکھی نہر میں نہ ملے اور سندھ کے دانشور ان پر،،چھتیسواں در،،نامی کہانی نہ لکھیں، اب کوئی بوڑھا اپنے سفید بالوں پر کالک مل کر وٹہ سٹہ نہ کرے!
اب لڑکیاں واقعی رحمت ہوں وہ اپنے باباؤں کے گھروں میں بار نہ ہوں۔
اب کسی بے غیرت مرد کو کوئی غیرت نہ آئے اور کسی معصوم لڑکی کا سر دھڑ سے جدا نہ ہو۔
اب کسی لڑکی پر کوئی جرگہ نہ ہو۔
ان جرگوں میں کسی لڑکی کی کوئی قیمت طے نہ ہو۔
اب کسی لڑکی کو بس اس لیے،،سنگ چٹی،،(بدل) میں نہ دیا جائے کہ اس کے بھائی نے کسی اور لڑکی پر ظلم کیا اور یہ معصوم لڑکی کام میں آگئی۔
اب کسی لڑکی کو اس لیے پڑھنے سے نہ روکا جائے کہ وہ بڑی ہو رہی ہے۔
اب کسی لڑکی کو عزت نہ سمجھا جائے پر اسے انسان سمجھا جائے!
اب کوئی اور کاری نہ کی جائے اور ان ہتھیاروں کو زنگ لگ جائے جن سے معصوم لڑکیوں کے سینوں پر بھونکتا بارود اُنڈیلا جاتا ہے۔اب کاریوں کے،،مقام،،پر ایسا بورڈ آویزاں کیا جائے کہ
،،اگر یہاں کسی کو دفن ہوتے دیکھا گیا تو دس مردوں کو قتل کر دیا جائیگا!،،
اب کسی معصوم لڑکی کواس کی مرضی کے بغیر حاملہ نہ کیا جائیگا!
اب کوئی کائینات سومرو یہ دھائی نہ دیتی پھریگی کہ،،اسے سردار کے بیٹے نے ریپ کیا ہے!،،
اب کسی نہتی لڑکی کو سنگسار نہ کیا جائیگا، پر ان مردوں پر پتھروں کی بارش ہوگی جو ان معصوم کو ورغلاتے ہیں اور انہیں دھوکہ دیتے ہیں!
اب لڑکیوں کو بس اس لیے پڑھنے سے روکا جائیگا کہ ان کا اسکول گھر سے دور ہے اور وہ اب گھر بیٹھ جائیں!
اب کوئی اور ڈاکٹر شازیہ نہ بنے گی!
اب کوئی کوٹہ نہ رکھا جائیگا جو قابل ہوگا وہ آگے آئیگا پھر چاہیے وہ حنیف ہو یا حنیفہ!
اب کوئی اور مختارہ مائی نہ بنے گی!
اب معصوم بچیوں کو آزادی دے جائیگی کہ وہ تتلیوں کی طرح اُڑتی پھریں اور جنسی درندوں کے گلوں میں طوق ڈالے بھاری پتھروں سے باندھا جائیگا!
اب کوئی زینب کو ٹافی دے کر ریپ نہ کرے گا!
اب کوئی لڑکی کو اس لیے قتل نہ کریگا کہ وہ ناچنا چاہتی ہے!
اب کسی لڑکی کو اس لیے رات کی تاریکی میں قتل نہ کیا جائیگا کہ وہ کسی کی شادی میں عورتوں کے درمیاں ناچی تھی۔اور وہ اور بھی ناچنا چاہتی تھی۔
اب کسی لڑکی کی گواہی کو بھی رد نہ کیا جائیگا
اب کوئی پچاس سال کا بوڑھا کسی دس سال کی بچی کو اپنی زوجہ نہ بنائے گا!
دستار و فضلیت کی آڑ میں انسانوں کے دشمنوں سنو یہ مارچ اس لیے کہ
،،تیرا ناؤں؟،،
،،کانتی،،
،،تیرا روپ انوپ ہے،،
،،میرا رنگ نہ روپ ہے،،
،،تیری صورت سانولی
تو کیا جانے بانولی
من منڈک کی آگ ہے
تیری کایا کانتی،،
،،میرا ناؤں کانتی
میرا بھیس بنا رسی
تیری بولی پارسی
میری بولی پوربی
اور میں پوجوں مورتی
تیرا من گھنگھور میں
چندر ماں کی شانتی،،
شترو سمجھ نہ کانتی
یہ میرا بھی دیس ہے
کتنا گہرا گیراوا
میرے تن کا بھیس ہے
تیرے میرے گاؤں کا
اپنا اپنا تھانولا
لیکن ان کے بیچ میں
پانی تو ہے ایک سا
میری اچھی کانتی
میں تو ہوں ویدانتی!،،
یہ مارچ اس لیے کہ جب مردو وزن کو ناموں سے نہیں پر ان کے کاموں سے عزت دے جائیگی!
یہ مارچ اس لیے کہ جب حنیف،حنیف نہ ہوگا اور حنیفہ،حنیفہ نہ ہوگی!
یہ مارچ اس لیے کہ جب کوئی خلیل کسی ماروی کو گالی نہ دیگا!
یہ تک خلیلوں کی طرف سے ماریوں پر گالیوں کی بوچھاڑ ہو تی رہیگی
جب تک،،عورت مارچ،،کی صدائیں بھی آتی رہنگی
ماروی سرمد زندہ باد!
عورت مارچ زندہ باد!


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔