ڈاکٹر منان بلوچ آخری سانس تک تحریک میں اتحاد کے لیے کوشاں رہے – بی این ایم

162

بلوچ نیشنل موومنٹ کے ترجمان نے جاری بیان میں کہا ہے کہ پارٹی کے ماہانہ آن لائن اجلاس میں شہدائے مستونگ ڈاکٹر منان بلوچ اور ساتھی اور جنوری کے شہدا ء کی یاد میں منعقد کیاگیا۔ اس میں پارٹی کے مرکزی انفارمیشن سیکریٹری دل مراد بلوچ، ڈائسپورہ کمیٹی کے آرگنائزر ڈاکٹر نسیم بلوچ، نارتھ امریکہ زون کے رہنما اور بلوچ دانشور ڈاکٹر ظفر بلوچ، قاضی داد محمد ریحان، برطانیہ زون کے صدرحکیم بلوچ، جرمنی زون کے جنرل سیکریٹری اصغربلوچ اور نیدرلینڈ زون کے صدر کیّا بلوچ نے خطاب کیا۔ اجلاس میں بی این ایم ممبران نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔

آن لائن اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے دل مراد بلوچ نے کہا ڈاکٹر منان بلوچ کی شہادت ہمارے ناقابل تلافی نقصان ہے کیونکہ ہر شخصیت اپنے آپ میں منفر دہوتا ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر منان جان انتہائی ممتاز و منفرد رہنما تھے۔ ڈاکٹر صاحب ایک بڑی شخصیت، ایک مدبر انسان،ایک دانشوراور وسیع المطالعہ انسان تھے۔ جب انہوں نے زرمبش میں سلسلہ وار لکھنا شروع کیا تو نہ صرف بلوچستان بلکہ پورا خطہ ان کی توجہ کا مرکز تھا۔ مطالعہ کا یہ عالم تھا کہ گریشگ،مشکئے یا جھاؤ جیسے دورافتادہ اور پسماندہ علاقوں میں وہ باقاعدہ انگلش و اردو کے موقر جریدے اور اخبارات و رسائل منگواتے تھے۔ میں نے ان کے مطالعہ میں کبھی ناغہ نہیں دیکھا۔ جب مطالعہ میں منہمک ہوتے تو گویا ان کا کام ہی صرف مطالعہ ہے۔ جب مجالس و دیوان میں ہوتے تو آدمی سوچتا کہ اس انسان کا کام صرف مجالس میں لیکچر دینا ہے۔ جب سفر کا حال سنیں تو شائد آپ یہی سوچنے پر مجبور ہوجائیں کہ ڈاکٹر منان جان صرف سفر کے لئے پید اہوئے تھے۔ ایک ہمہ جہت اور ہمہ گیر انسان، جس کا خلا پر ہونے میں ہمیں شائد صدیوں درکار ہوں۔

دل مراد بلوچ نے کہا، بلوچ سیاست کا مرکزہمیشہ سے شہری علاقوں تک محدود رہا ہے۔ لیکن بلوچستان تو دیہات اور پہاڑی علاقوں میں بستاہے۔ سیاست کی کمان ہمیشہ سے بلوچ ایلیٹ کلاس کے ہاتھ میں رہاہے۔ بلوچستان کی سیاست کو شہری علاقوں سے دیہی علاقوں میں منتقل کرنے میں بہت سے دوستوں کی محنت شامل ہے لیکن میں سمجھتاہوں کہ اس میں سب سے بڑا کریڈٹ ڈاکٹر منان جان کوجاتاہے کہ انہوں نے دیہی علاقوں میں موبلائزیشن کے عمل کا آغاز کیا اور عام لوگوں کو بلوچ قومی سیاست کے فیصلوں میں شریک کرنے کے لیے انتھک محنت سے کام کیا۔ایسے علاقے جہاں قومی سیاست کے آثار کم ہی ملتے ہیں، ڈاکٹر منان بلوچ نے ان علاقوں میں قومی سیاست کا بیج بویا،اس کی آبیاری اور اسے عملی شکل دی۔

انہوں نے کہا ڈاکٹرصاحب کبھی محدود نہ رہے۔ وہ ہمیشہ انتہائی متحرک تھے۔ وہ ہمیشہ کہتے کہ ہمیں احتیاط اورخوف زدہ ہونے میں فرق کرنا چاہئے۔ اگر ہم احتیاط کے نام پر خوف زدہ ہوئے تو پارٹی کا عمل رک جائے گا۔ انہوں نے خوف کو بالائے طاق رکھ کرہمیشہ پارٹی اجلاس،عوامی سرکل اور کار کنوں کے تعلیم و تربیت میں مصروف رہے۔ ڈاکٹر صاحب کے حلقہ درس کے دوستوں کی اکثریت آج بھی جدوجہد میں عملی حصہ رہے ہیں۔ ڈاکٹر منان جان بلوچ نے ہمیں یہ درس دیا؛ بلوچ اور بلوچیت کیا ہے؟ ڈاکٹر منان بلوچ نے ہمیں یہ بھی سکھایاکہ انسان کو جو زندگی ملی ہے اس کا بہترین مصرف کیا ہے؟

انہوں نے کہا ڈاکٹر منان جان کا رویہ و مزاج ہمیشہ صدابہار تھا۔ ایک خندہ چہرہ،کبھی ماتھے پہ شکن نہیں دیکھا اور اہم بات یہ ہے کہ انہیں قومی مقصد کی تبلیغ کے لئے کسی بھی کماش کے لوگوں سے پرہیز نہیں تھا۔ عام بلوچ ہو،سردارہو،سرکاری آفیسر ہویا بزنس مین۔تحریک کے دوست خواہ ہوں یا تحریک کے مخالف۔ ڈاکٹر منان بلوچ ان سے ضرور ملنے جاتا۔ ان کا زیادہ توجہ ان لوگوں پرتھا جو بات نہیں سنتے، جو تحریک سے محبت نہیں رکھتے یا مخالف تھے یا اس ضمن میں بات کرنے سے گریز کرتے، ڈاکٹر صاحب انہیں قائل کرنے کی کوشش کرتا لیکن صاف گوئی سے کام لیتے، تحریک مخالف لوگوں کے لئے کبھی ان کے لہجے میں نرمی نہیں دیکھی گئی۔ لیکن ان کی گفتگو اتنی مدلل اور زبان میں ایسی تاثیر تھی کہ کوئی انہیں سامنے جواب نہیں دے سکتا تھا۔ گویا ان کی زندگی قومی مقصدکی تعلیم وتربیت کے لئے وقف تھا۔

دل مراد بلوچ نے کہا بلوچ قومی تحریک میں آج اتحاد کی جس صورت کو ہم دیکھ رہے ہیں اس کا سہرا بھی ڈاکٹر منان جان کو جاتاہے کہ انہوں نے انتہائی سخت حالات میں دوستوں سے ملنے کے لئے سراوان کا سفر کیا۔ حالانکہ اس وقت پارٹی کے خلاف پروپیگنڈہ عروج پہ تھا، لیکن یہ ان کی بصیرت اور دوراندیشی تھا کہ انہوں نے ان تمام باتوں سے صرفِ نظر کرکے بات چیت کے لئے پہل کی اور دوسری اہم بات یہ کہ وہ قومی موقف کے حوالے سے لچکدار ہونے کے قائل تھے بلکہ قومی آزادی کے حقیقی آزادی،حقیقی تنظیموں کے اتحاد کا خواہاں تھے۔

انہوں نے کہا ڈاکٹر منان بلوچ کی پہلی ترجیح ہمیشہ پارٹی رہا۔ وہ اکثر کہاکرتے کہ ہمارے پاس ایک منظم پارٹی ہوگا تو ہی بلوچستان آزادہوگا۔ ہمیں تمام مشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے بلوچ نیشنل موومنٹ کو مضبوط کرنا ہوگا۔ ان کی شہادت بھی اسی سفرپر میں ہوا۔ بلامبالغہ ان کی سیاسی بصیرت اورسیاسی بلوغت کا اثرپاکستان کے تمام تر بربریت کے باوجود ہمیں بلوچ قوم میں ہمیں نظر آرہاہے آج بھی بلوچ میدان عمل میں سرگرم ہیں۔

دل مراد بلوچ نے کہا ڈاکٹر منان جان کے ہمراہی میں شہید ہونے والے تمام دوست قابل انسان تھے۔ ان میں بابو نوروز بھی شامل تھا جو ایک دانشور اور اعلیٰ پائے کے رائٹر تھے۔ انہوں نے حمید شاہین پر ایک کتاب مرتب کی،انہوں نے اخبارات و رسائل میں مختلف ناموں سے سینکڑوں کی تعداد میں مضامین تحریر کیے۔ ہمیں چاہیئے بابو نوروز سے آگاہی کے لئے ہم ان کے مضامین پڑھیں اور ان کی شخصیت سے واقفیت حاصل کریں۔

دیوان سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹرنسیم بلوچ کہا کہ حالیہ تحریک کے پہلے شہدا شہداء گل بہار، شہید واحد اور شہید سوبدار بلوچ بھی اسی مہینے قلات میں شہید کیے گئے اورپاکستان نے اعلان کیاکہ اس نے بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“کے ایجنٹ مارے ہیں۔ یہ جدوجہد کے آغاز کے دن تھے ۔ اس لئے کوئی بڑا عوامی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ اس ضمن میں شخصیات میں سے صرف سردارعطااللہ خان مینگل نے ایک مبہم سا بیان دیا کہ قلات میں را کے ایجنٹ میری سمجھ سے باہرہے۔ لیکن بی ایس او واحد بلوچ تنظیم تھی جس نے انہیں قومی آزادی کے سرمچار قرار دیا۔ پھر بتدریج ان شہدا سمیت بلوچ قومی آزادی، غیر پارلیمانی سیاست اورمسلح محاذ کے بارے میں لوگ آگاہ ہوتے رہے اور جدوجہد میں لوگوں کی عملی شرکت میں اضافہ ہوتا گیا۔
ڈاکٹرنسیم بلوچ نے کہاکہ ڈاکٹرمنان بلوچ موجودہ تحریک کے اولین ساتھیوں میں سے تھے اور مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ مجھے اس دوران ڈاکٹر منان جان، ڈاکٹراللہ نذربلوچ، ڈاکٹر دین محمد جیسے ہستیوں کا قربت حاصل رہا۔ان دنوں میں ہمارے حلقوں میں اس مباحثے کا آغاز ہو چکا تھا کہ بی ایس اوکے آئین ومنشور میں بنیادی تبدیلی لائی جائے اور اس تنظیم کے پلیٹ فارم سے آزادی کی جدوجہد کی تحریک چلائی جائے۔ بی ایس او کے اس فیصلے سے ڈاکٹر منان کو بہت خوشی ہوئی۔ پھرجلد ہی موجودہ بی این ایم کا قیام عمل میں آیا۔

انہوں نے کہاکہ ڈاکٹر منان بلوچ ایک معاملہ فہم، بردبار اور دلیر رہنما تھے اوران کی زندگی بلوچ قومی آزادی کے لیے وقف تھا۔ انہوں نے مشکل حالات میں اپنی زندگی کا آغاز کیا۔ بچپن ہی میں وہ یتیم ہوگئے تھے، انتہائی مشکل حالات میں تعلیم حاصل کی اوربلوچ کاز کی خاطر اپنی پُرآسائش نوکری سے استعفیٰ دیا۔انہوں نے پاؤں سے معذورہونے ساتھ ساتھ دیگر جسمانی بیماریوں کو کبھی بھی سیاسی کاموں کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہونے دی۔

ڈاکٹرنسیم بلوچ نے کہا کہ انہوں نے تمام مشکلات کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا اور ایک دن بھی آرام سے نہیں بیٹھا۔ وہ ہمیشہ سفر میں رہے اور شہادت بھی اسی سیاسی سفر میں تنظیمی امور کے انجام دہی کے دوران اپنے آبائی علاقے سے کوسوں دور مستونگ میں ہوئی۔ ڈاکٹر منان بلوچ کے ہمراہ بلوچ قوم کے انتہائی قابل دانشور بابو نوروز، اشرف جان، حنیف جان اور کمسن ساجد جان کوبھی پاکستان نے قتل کیا۔

انہوں نے کہا کہ آپریشنوں کے آغاز میں ڈیرہ بگٹی سے ہزاروں لوگوں کو مہاجرت پر مجبور کیاگیا اور یہ لوگ نصیرآباد اورگرودونواح میں چلے گئے اور وہاں انتہائی بے بسی اورمشکل حالات سے دوچار تھے۔ ڈاکٹر منان بلوچ نے ساتھیوں کی مشاورت سے ایک امدادی کیمپ کا آغاز کیا۔ ہم نے امداد جمع کی اور متاثرین تک پہنچایا اورایک میڈیکل کیمپ لگایا جس میں وہ خود بھی شریک تھے۔

آن لائن اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پارٹی کے نارتھ امریکہ زون کے رہنما اور دانشور ڈاکٹر ظفربلوچ نے کہا آج کا دن ڈاکٹر منان جان اور ساتھیوں کے لیے مختص ہے تو میں کوشش کروں گا کہ ڈاکٹر منان جان بلوچ کی شخصیت اور حالات روشنی ڈالوں۔ پاکستان کا ایک پیغام تھا کہ بلوچ نیشنل موومنٹ اور بی ایس او کی قیادت کو گرفتاری کے بجائے موقع پر ختم کیاجائے کیونکہ یہ نامی گرامی شخصیات ہیں اور انہیں گرفتار کرکے لاپتہ کرنا شائد مشکل تھا۔

ڈاکٹرظفربلوچ نے کہاتنظیمی کاری جدوجہد اورتحریک کے لئے نہایت اہم ہے اور ڈاکٹر منان بلوچ اس عمل میں ہمیشہ مصروف رہے اورتحریک کے اس اہم پہلو یعنی تنظیم کاری، جدوجہد اوربلوچ قوم کو منظم کرنے کے لئے انہوں نے جان کا نذرانہ پیش کیا۔ انہوں نے کہا، میں ڈاکٹرمنان بلوچ کی زندگی اورسیاسی سفر میں دوانتہائی اہم پہلووں پربات کروں گا۔ پہلا یہ کہ قومی تحریک میں اتحادکس پیمانے پر ہو، اور دوسرا یہ کہ اس تمام سیاسی جدوجہد کو کس طرح ماس موومنٹ میں تبدیل کیا جائے۔اس باب میں ان کا جدوجہد نمایاں ہے۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ پانچ سال بعد دونوں محاذ پر نئی جدت آئی ہے اورمسلح محاذمیں ایک اتحاد بن چکاہے اورسیاسی محاز پر ماس موومنٹ کے آثارواضح دکھائی رہے ہیں۔ جب ڈنک میں شہیدملک ناز کا واقعہ پیش آتاہے یا اب شہید بانک کریمہ بلوچ کا واقعہ ہو۔ان واقعات کے خلاف کراچی اور بلوچستان میں ایک عوامی ردعمل کا ایک سیلاب امڈآتاہے۔یہ اس بات کا مظہر ہے کہ بلوچ کس طرح ماس موومنٹ کی جانب بڑھ رہاہے۔آج ڈاکٹر منان بلوچ اورساتھیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کا بہترین طریقہ ان کے مشن کو آگے بڑھانا ہے۔

قاضی داد محمد ریحان نے دیوان سے خطاب کرتے ہوئے کہا ڈاکٹرمنان بلوچ کو جتنا میں نے دیکھا،پرکھا اورسمجھ پایا تومیں یہ کہہ سکتاہوں کہ اگر ہماری پارٹی میں شہید ڈاکٹر منان بلوچ موجود نہ ہوتے تو آج ہمیں بی این ایم میں جو نظریاتی اپروچ نظرآتاہے تو شائد یہ نہ ہوتا۔ہم جذباتی بنیاد میں نیشلسٹ ضرورتھے کیونکہ ڈاکٹرمنان جان سے پہلے بھی بلوچ قومی جدوجہدمیں بعض چیزیں ہمیں نظرآتے ہیں لیکن نیشنلزم کے نظریے کے بیشترپہلو ڈاکٹر منان بلوچ نے نہایت بہترطریقے سے سمجھاکرہمیں تھمادی کہ قوم دوستی یہ ہے اورانہوں نے جدوجہدکو ایک انقلابی رنگ سے آراستہ کیا۔

انہوں نے کہا پہلے یہ ہوتاکہ بلوچ ایک قوم ہے جسے آزاد کرنا ہمارا فرض ہے لیکن آزادی کے بعد بلوچستان میں کیسا نظام ہو، عنانِ اقتدارکس کے ہاتھ میں ہوگا، پہلے پارٹی کا موٹو بلوچ گلزمین، بلوچ وسائل اوربلوچ ساحل و سمندرتھا۔ ڈاکٹر منان بلوچ نے ہمیں سمجھایا کہ بلوچ سرزمین پر وسائل ہی نہ ہوتے یا کل کلاں ان وسائل کی دنیا میں اہمیت باقی نہیں رہا یا وسائل کم یاختم ہوگئے تو کیا بلوچ آزادی کی تحریک سے دست بردارہوگا۔اس بنیادپرپارٹی کے 2010کے سیشن کے پارٹی میں موٹوتبدیل کیا گیا اور ڈاکٹر منان بلوچ کی بدولت آج پارٹی کا موٹو آزادی، انصاف اور برابری ہے۔آج ہم ایسے آزاد وطن اور آزاد سماج کا خواہاں ہیں کہ بلوچ انسانی حیثیت سے آزادہو۔ یہ ہمارانظریاتی اثاث ہے اورہم آزادبلوچستان میں ایک ایسی حکومت کے خواہاں ہیں جوبلوچ قوم کی کامل آزادی کا ضامن ہو۔ یہ مقصد صرف ایک منظم پارٹی کے پلیٹ فارم سے جدوجہد میں مضمر ہے۔یہی ڈاکٹر منان بلوچ کی جدوجہد کا ثمرہے۔

قاضی دادمحمدریحان نے کہاڈاکٹر منان بلوچ پارٹی میں اختلاف کاقائل تھا۔ وہ اختلافی اقدارکے قدردان تھے۔ وہ اختلاف رائے کو پارٹی حسن قراردیتے تھے اوریہ ان کی شخصیت کاخاصہ تھااورہمیشہ اس بات پرزور دیتے تھے کہ اختلافی نقطہ نظرپر کسی بھی ساتھی کوآئسولیٹ نہیں کیاجائے۔

انہوں نے کہا اگر ہم ڈاکٹر منان بلوچ کے فکر و فلسفے پر گامزن رہیں ہوسکتاہے کہ ہم ڈاکٹرمنان جیسے شخصیت نہیں بن سکتے لیکن جب ہمارے حوصلوں میں کمی و کمزوری آئے تو ہمیں ضروریاد آئے گا کہ ہماری صفوں میں ڈاکٹرمنان بلوچ جیسا ہستی موجود رہاہے جنہوں نے کن کن مشکلات میں اپنا سفرجاری رکھا، تو ہمیں یہی درس ملے گا کہ اس جدوجہد کو منزل تک پہنچانا ہے تو ہمیں ڈاکٹر منان بلوچ کی راہ پر گامزن ہونا ہے اورہمیں چیئرمین غلام محمد بنناہوگا۔

آن لائن اجلاس میں بی این ایم جرمنی کے جنرل سیکریٹری اصغربلوچ اور بی این ایم نیدرلینڈکے صدرکیابلوچ نے بھی خطاب کرکے شہدائے مستونگ کو یاد کرکے خراج عقیدت پیش کیا۔