گیارہ لاش ایک زندہ لاش کے منتظر – عامر بلوچ

533

گیارہ لاش ایک زندہ لاش کے منتظر

تحریر: عامر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

میں تھوڑی دیر کے لیئے گھر سے نکلا، باہر کسی دوست کا انتظار کر رہا تھا تو دو منٹ بھی رک نا پایا اور سردی کی شدت کی وجہ سے واپس کمرے میں آگیا ، تبھی میرے ذہن میں فوری بلوچستان کے ہزارہ بیٹے ،بیٹیاں، بوڑھے ماں باپ آگئے جو منفی دس ڈگری سینٹی گریڈ میں اپنے پیاروں کی لاشوں کے ساتھ بیٹھ کر ایک زندہ لاش کا انتظار کر رہی ہیں، جس کو صرف اس بات کا غم ہے کہ وہ ترکی کا اگلا کونسا ڈرامہ اپنے یوتھیوں کو دکھا کر ان کا ایمان تازہ کرے۔

ریاست مدینہ ثانی کے دعوے دار کوئٹہ کے سردی کو چھوڑ کے آپ شہر اقتدار کے سڑک پہ ایک شام اس سردی میں گزار کے دیکھو
ہم بلوچستان کے کیڑے مکوڑے جن کی زندگی آپ کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں رکھتی، جب چاہا ان کو اٹھا لیا جب چاہا مسخ، جب چاہا ہمارے اہل علم کو بموں سے اڑا دیا، جب چاہا دیار غیر میں بھی ہمیں لاپتہ کر کے ماردیا، جب آپ نے چاہا ہمارے مزدوروں کے گلے کاٹ دیئے پر یاد رکھنا تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی ظلم حد سے بڑھ جائے تو بغاوت جنم لیتی ہے اور یہ بغاوت تب اور بھی شدت سے ابھرتا ہے جب اس کے پاس کھونے کو کچھ نہیں ہو۔

میں تو سمجھتا ہوں کے آپ کی یہ بے حسی اور ظلم نے سارے مظلوموں کی آنکھیں کھولنے میں مدد دی ہے، ریاست مدینہ ثانی کے سرکار آپ کی بے حسی کا بھی شکریہ ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں