سمیر صابر سرکاری ملازم ہے، انہیں منظر عام پر لایا جائے – بھائی جسی صابر

385

مند سورو بازار سے مئی 2013 کو جبری گمشدگی کا شکار ہونے والے سمیر صابر کے بھائی نے ان کو منظر عام پر لانے اور انصاف کی فراہمی کا مطالبہ کیا ہے۔

لاپتہ سمیر صابر کے چھوٹے بھائی نے اپنے ویڈیو بیان میں کہا کہ میرے بھائی کو 8 سال قبل سورو بازار سے مسلح افراد اغواء کرکے لے گئے، سمیر صابر سرکاری ملازم ہے اور محمکہ فشریز میں ڈرائیور کے عہدے پر فائز تھا۔

جسی صابر نے انسانی حقوق کے اداروں اور وزیر اعظم پاکستان سے اپیل کی ہے کہ اگر کسی بھی جرم کا مرتکب ہوا ہے تو اسے عدالت میں پیش کرکے انصاف کے تقاضے پورے کیئے جائیں۔

سمیر صابر کی والدہ گذشتہ آٹھ سالوں سے کراچی اور کوئٹہ پریس کلبوں کے سامنے لاپتہ افراد کے کیمپ میں بیٹے کی بازیابی کے لئے اپنے احتجاج رکارڈ کرا رہی ہے۔ سمیر صابر کی والدہ کی ایک ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں وہ بیٹے کے تصویر کے ساتھ زار و قطار رو رہی ہے۔

سمیر صابر کے جبری گمشدگی کے خلاف بلوچ سوشل میڈیا ایکٹویسٹ کی جانب سے #SaveSameerBaloch کے ہیش ٹیگ کے ساتھ کیمپئن چلائی جارہی ہے جبکہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ سمیر صابر اور دیگر لاپتہ افراد کو منظر عام پر لاکر فری ٹرائل کا موقع دیا جائے۔

بلوچستان سے جبری گمشدگیوں کے خلاف لاپتہ افراد کے لواحقین وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے پلیٹ فارم سے گذشتہ ایک دہائی کے زائد عرصے سے کراچی اور کوئٹہ پریس کلبوں کے سامنے اپنا احتجاج رکارڈ کرا رہے ہیں۔ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چئرمین نصر اللہ بلوچ نے کہا کہ جبری گمشدگیاں غیر آئینی اور انسانی حقوق کی پامالی ہے حکومت لاپتہ افراد کی بازیابی کو یقینی بنائے۔