بھگوان! مکیش کی رکشا کرنا – محمد خان داؤد

211

بھگوان! مکیش کی رکشا کرنا

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

وہ بھی گم ہوگیا جسے بہت کچھ کرنا تھا، پر ابھی وہ کچھ بھی نہ کر پایا تھا
ابھی تو اس کے گلے میں وہ اجر ک ویسے کا ویسا موجود تھا جو وہ پی ٹی ایم کی رہنما ثناء اعجاز کو دینا چاہتا تھا۔

ابھی تو اس کی وہ تصویر ہی وائرل نہیں ہوئی تھی جس تصویر میں منظور پشتین کے ساتھ کھڑا ہے۔ ابھی تو وہ تھر میں جا کر اپنے دوستوں سے وہ حال حوال کرنا تھا جس میں وہ منظور پشتین سے مخاطب ہوا تھا۔
ابھی تو علی وزیر اس سے اردو میں اور وہ سندھی ٹائیپ اردو میں ایک دوسرے سے مخاطب ہو ئے تھے۔
ابھی تو علی وزیر پشتو میں اور اسے سندھی میں ایک دوسرے سے مخاطب ہونا تھاکہ وہ ایک دوسرے کی زباں بھی نہ سمجھیں اور حال حوال بھی کرتے رہیں۔
ابھی تو محسن داوڑ نے اس سے اجرک لے کر اسے سینے سے لگایا تھا
ابھی تو اس کے سر پر وہ ٹوپی بھی صحیح طریقے سے نہیں جمی تھی جو ٹوپی پشتین نے اسے دی تھی
ابھی تو وہ پشتو گیتوں پر سندھی رقص کر رہا تھا
ابھی تو اس نے ان جملوں کو سمجھا ہی نہیں تھا جو جذبات میں آکر علی وزیر کہہ گیا تھا
ابھی وہ د ل سے پی ٹی ایم کے قریب اور روح سے دور تھا
جو اپنے پیکج والے فون پر گھنٹوں گھنٹوں تھر میں رہنے والی ماں سے بات کرتا اور ماں کے پوچھنے پر کہ وہ واپس کب آئیگا تو وہ بہت ہی معصومیت سے جواب دیتا کہ جب تو میری لیے دلہن تلاش کرلے گی جب
وہ جسے انقلاب،ماں اور کتابوں سے محبت تھی
وہ جو مذہب سے ہندو،زباں سے سندھی اور دل سے انقلابی تھا
وہ جسے مذہبی بجھن یاد نہ رہتے
پر وہ جو دل سے انقلابی شاعری یاد کرتا
وہ فیض کو پڑھ کر غمگین،ایاز کو پڑھ کر خوش ہوتا
جو اپنے سے لطیف کو پڑھتا اور خود ہی لطیف کے الفاظ کے معنیٰ تلاش کرتا
وہ لطیف کے بیتوں کو نئے نئے معنیٰ دیتا
جب وہ لطیف کے ان الفاظ کو پڑھتا تو آنکھیں نہیں پر دل اشک بار ہوجاتا اور وہ سمجھ جاتا کہ لطیف کے یہ الفاظ ان ماؤں کے لیے ہیں جو مائیں اس دھرتی پر اکیلی کر دی گئی ہیں،جو مائیں ننگے سروں اور ننگے پاؤں سفر کرتی ہیں پر انہیں اپنے پنہوں نہیں ملتے
”ڈونگر مون سین روءِ
کڈھی پار پنہوں جا!“
یا
”مون سا ن ھلے سا
جا جی مٹھو نہ کرے؟“
تو اس کی آنکھیں ہی کیا اس کا دل بھی گیلا گیلا اور اشک بار ہو جاتا
پھر وہ سوچا کرتا مر تو سب ہی جائینگے کیوں نہ زندگی کو ایسے کام میں لایا جائے کہ زندگی کام میں آئے۔

وہ ان کے قریب ہوا تھا جن کے سروں پر لال ٹوپی،ہاتھوں میں رقص و ساز،اور زباں پر انقلاب کی باتیں! وہ ان کے قریب ہوا جو اکثیریت میں اقلیت ہیں۔ وہ ان کے قریب ہوا جو نئے بات لائے ہیں اور انئی بات کرتے ہیں۔ وہ ان کے قریب ہوا جن کی باتوں میں کوئی ابہام نہیں۔ وہ ان کے قریب ہوا جن کی باتیں ایسی ہیں جیسے نیا نمودار ہونے والے سورج۔ وہ ان کے قریب ہوا جن کی نئی باتوں سے ان سے ریاست بھی خائف ہے۔ وہ ان کے قریب ہوا جن کی باتوں میں شور نہیں پر شعور ہے۔

وہ ان کے قریب ہوا جن سے اکثر پاکستانی دور بھاگ رہے ہیں، وہ ان کے بہت قریب آیا اپنی آنکھوں سے انہیں دیکھا، ہاتھوں کے لمس سے محسوس کیا، کانوں سے سنا اور ان سے بغلگیر ہوا
وہ جو نئے دور کا یسوع تھا
یہ جو نئے دور کی مریم تھا
وہ جو نئے دور کا منصور تھا
یہ جو نئے دور کا اناالحق تھا
وہ جو نئے دور کا سرمد تھا
یہ جو نئے دور کا ابھی چند تھا
ہاں وہ ابھی چند تھا ساگر مکیش ابھی چند جیسا
وہ چاہیے ساگر مکیش ہو یا ابھی چند
بقول شیکسپئیر کے نام میں کیا رکھا ہے
ابھی اس کے گے میں وہ اجرک تھی جو اس نے ثناء اعجاز کو دینی تھی اس سے پہلے وہ بھی گم کر دیا گیا
اب کراچی کی ہواؤں سے بہت دورمکیش کی اماں اس کو پیکج والی فون کال کرتی ہے پر نہ تو وہ کال ہی لگتی ہے اور نہ دوسری طرف سے ”ہیلو اماں“کی مکیش کی آواز ابھرتی ہے
مکیش کو کراچی سے گم کر دیا گیا ہے۔ مکیش کا قصور بس اتنا سا ہے کہ وہ نیا سماج اور نیا انسان بنانے کی جدوجہد کررہا تھا
وہ مٹی کو پھر سے گوند رہا تھا
وہ نئے سر تخلیق کر رہا تھا
وہ نئے صبح میں نئی اُمید دیکھ رہا تھا
اور روشنیوں کے دشمنوں نے اسے گم کر دیا
یہ بات جب سے اس تھری ماں کو معلوم ہوئی ہے کہ اس کے بیٹے کو کراچی میں گم کر دیا گیا ہے
تو وہ مسافر نہیں بنی
اس نے کراچی کے لیے سفر نہیں کیا
پر وہ تھر کے مندروں میں مورتیوں کے سامنے جا بیٹھی ہے
وہ مندروں کے بجھے دئیے جلا رہی ہے
وہ مندروں کے رُکے ہوئے خاموش گھنٹے بجا رہی ہے
وہ لمبی لمبی پراتھنا کر رہی ہے
اداس مندروں میں پرانی مورتیاں خاموش ہیں
پر وہ ماں مورتی تو نہیں
وہ تو ماں ہے
وہ رو رہی ہے
اور بہت رو رہی ہے
وہ ان مورتیوں سے گیلے اشکوں سے
کہہ رہی ہے
”بھگوان وہ تو اونچی آواز پر ہی رو بیٹھتا ہے
اس کی رکشا کرنا!“


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں