ریاست سُن لو! – عالیان یوسف

374

ریاست سُن لو!

تحریر: عالیان یوسف

دی بلوچستان پوسٹ

تم بے مہار ہو، بے لگام ہو جو کچھ کررہے ہو بلا دھڑک کیجئے اور بلا تعطل کیجئے، شہروں میں باڑ لگایئے، زبانوں پر تالے اور تابوتوں پر قفل لگائیے، میتوں کو حراست میں رکھیئے، لاشوں کو مسخ کیجیے لیکن یہ بھی جان لیجیے گا کہ تمھاری حرکتوں نے تمہارے وجود اور تمھارے تابعداری سے منکر بلوچوں کو آزادی کی اہمیت سے مزید آشنا کر دیا ہے. بلوچ اپنے سرزمین کی آزادی اور راہ آزادی میں قربانیوں سے آگاہ ہیں وہ جانتے ہیں کہ مجموعی طور پر سرزمین کے گرد لگی آہنی زنجیروں سے نجات کے لئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنا کوئی بہت بڑی قیمت نہیں . تمھاری وجود سے منکر بلوچوں کو سب سے بڑا ڈر یہی تھا کہ دوسرے تہذیب یافتہ اقوام کے سامنے بلوچوں کی شناخت تمھارے حوالے سے نہ ہو وہ تاریخی طور پر اپنی اس مہذب شناخت کے مسخ ہونے سے ڈرتے تھے جس کو بچانے کیلئے اپنے خوبصورت چہروں کو مسخ ہونے جیسے تکلیف دہ عمل کو بھی گوارا کر بیٹھے . تمھارے حرکتوں نے ان کی شناخت پر جمے دھول کو اُتارنا شروع کردیا ہے وہ اب الگ سے پہچانے جانے لگے ہیں. تم جو ان کو بزور قوت اور بہ زور جبر اپنے ساتھ کھڑا کر کے اپنے وجود کا حصہ دکھانا چارہے تھے. وہ تم سے بتدریج سرک سرک کر الگ ہو گئے ہیں.

تمہاری حرکتوں نے تمہارے بے پیرہن و بے لباس وجود کو اور ننگی کردی ہے.

تمھارے اندر جو خباثت بھری ہے، وہ روز بروز نکھرتی جا رہی ہے. جو بدتہذیبی ہے وہ اور نمایاں ہو کر قد کاٹ نکال رہی ہے. اس معاملے میں تمھاری وجود کے نمبر ون ہونے کو للکارنے والا کوئی پیدا نہیں ہوا یا پھر یوں کہیے کہ کوئی مقابلہ کرنا بھی نہیں چاہتا بھلا گندگی کے ڈھیر پر کھڑے ہو کر نحوست زدہ قد کاٹ والے بیہودہ وجود کے ساتھ کون کھڑا ہونا پسند کرے گا. وہ جن کی وراثت میں تہذیب کے ململ میں لپٹے ہوہے خوبصورتی سے تہہ کردہ دستاویز اور تاریخ کی خوشبو سے معطر خزینے موجود ہوں وہ تمھارے جیسے گندگی کے ڈھیر پر کھڑے وجود سے اپنا تقابل کیوں کریں گے؟

روز بروز جنم لیتی اور رقم ہوتی تاریخ کے پنوں میں جب جب بھی بلوچوں کا ذکر آئے گا اُس باب کے لئے عنوان چُننے میں مورخین کو زیادہ سر کھپانا نہیں پڑے گا۔ بلوچوں میں یہ پیدائشی جبلت موجود ہے. کہ وہ اپنے وطن کی مٹی پر قربان ہونے کو قابل فخر مانتے ہیں. اور وطن کی مٹی میں دفن ہونے کو اعزاز، بلوچ ہی کیوں ہر قوم میں یہی خصلت موجود ہے. صرف تمھارے ہاں یہ جذبہ ناپید ہے اس لیے کہ تم ایک قوم نہیں ہو اس لیے کہ تاریخ میں تمھارا کوئی قابل ذکر کردار نہیں. تم ایک طفیلی ریاست ہو جو مستعارلی ہوئی چیزوں کے بیساکھیوں پر لڑکھڑاتے پیروں کے ساتھ کھڑی ہے.

تمھاری اتنی حیثیت ہے نہ استطاعت کہ تم تاریخ کو مسخ کر سکو. تمھاری اتنی حیثیت نہیں کہ تم بلوچ مٹی سے جنم لینے والے گواڑخ کی خوشبو کو قید کر سکو. تمھاری اتنی اہلیت نہیں کہ پورے بلوچ زمین کو قید خانہ اور اس میں بسنے والے بلوچوں کو غلام یا باندی بنا سکو. روحوں کو قید کرنا تمھارے بس کی بات نہیں. تم تشدد کر سکتے ہو زبان بندی نہیں کر سکتے. وطن اور وطن پر قربان ہونے والوں کے لئے ہالو اور لیلڑی پر پابندی نہیں لگا سکتے.

ہم نے بانُک کریمہ کو بلوچ گل زمین کی مقدس خاک کے حوالے کردی ہے. اب وہ تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں . ہم شناخت گُم ہونے کے ڈر سے آزاد ہو چکے ہیں آزادی کے گیت ہمارا فریضہ بن چُکے. ہم بقاء کے راستے پر گامزن ہیں. ہمارے جذبات کی نکاسی اور نیا جنم سرزمین سے اُگنے والے خوبصورت پھول ہیں. اور ان پھولوں کی خوشبو ہی ہماری آزادی کا مبلغ ہے. تُم بے مہار ہو بے لگام ہو جو کچھ کررہے ہو بلا دھڑک کیجئے اور بلا تعطل کیجئے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں