بلوچ تحریک کو ختم کرنے کیلئے ریاستی حربے – ذوالفقار علی زلفی | ریاض بلوچ

808

بلوچ تحریک کو ختم کرنے کیلئے ریاستی حربے

تحریر: ذوالفقار علی زلفی | اردو ترجمہ: ریاض بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ تحریک کو ختم کرنے کیلئے پاکستانی حکام نے متعدد حربے آزمائے ہیں ـ ان حربوں میں سے چند یہ ہیں ـ

بلوچ سرداروں کی جیبوں کو گرم کرنا اور ان کی سیاسی قوت بڑھانا۔

2006 کو نواب اکبر خان بگٹی کی شہادت کے بعد بلوچوں میں غصہ بڑھ گیا ـ بلوچستان سمیت کراچی کے سارے بلوچ علاقے آگ کی لپیٹ میں آ گئے ـ بلوچ اشتعال کی شدت گھٹانے کے لیے قلات میں سرداروں کا گرینڈ جرگہ بلایا گیا ـ عوام کو پیغام دیا گیا کہ آپ لوگ شانت رہیے، حوصلہ رکھیے ، اکابرین بلوچ مسئلے کا مستقل حل نکال رہے ہیں ـ جرگے نے عوام کو تسلی دی کہ خان آف قلات انگلستان جائیں گے اور بلوچستان کا کیس قانونی سطح پر لڑ کر بلوچستان کی آزادی کو یقینی بنائیں گے۔

بابا خیر بخش مری کے علاوہ باقی تمام سرداروں نے اس جرگے کا خیر مقدم کیا ـ لوگوں کو جرگے کے نام پر ٹوپی پہنائی گئی اور سرداروں نے ریاست کو بلیک میل کرکے اپنے لیے مراعات بٹورنے شروع کیے ـ کوئی گورنر بنا تو کوئی وزیر اعلیٰ ـ کسی کو وفاقی وزارت مل گئی تو کہیں کسی نے اپنا لشکر بنا کر جرائم کا لائسنس حاصل کیا ـ مفادات کے حصول کے بعد یہی سردار بلوچ جدوجہد کے مقابل کھڑے ہو گئے۔ ـ

مذہبی جماعتوں کی سرپرستی

پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکمرانی میں ایک دفعہ جمیعت علما اسلام بلوچستان کے رہنما مولانا محمد خان شیرانی نے پاکستانی صحافی نصرت مرزا کو انٹرویو دیتے مطالبہ کیا کہ ” اگر آپ لوگ (ریاست) چاہتے ہیں کہ بلوچ قوم پرستی کو جڑ سے اکھاڑا جائے تو ہمارے ہاتھ مضبوط کریں” ـ اسی انٹرویو میں مولانا نے بلوچ قوم پرست جدوجہد کو اسلام کی رو سے حرام بھی قرار دیا تھا۔ ـ

نواب اکبر خان کی شہادت کے بعد پاکستانی حکمرانوں نے شیرانی کے اس مطالبے کو ایک حکمت عملی تصور کرکے اس پر عمل در آمد شروع کردیا ـ جمیعت، جماعت الدعوہ، لشکر جھنگوی اور دوسری انتہا پسند مذہبی تنظیموں کو پروان چڑھایا گیا اور ان کو مادر پدر آزادی دی گئی ـ تبلیغی جماعت کے مولانا طارق جمیل کو بھی بلوچستان بھیجا گیا، جگہ جگہ مدرسے کھولے گئے، شیعوں بالخصوص ہزارہ برادری پر ہلاکت خیز حملے کروائے گئے ـ بلوچ قومی جدوجہد کے سامنے شدت پسند مذہبی سیاست کا سد باندھنے کی ہر ممکن کوشش گئی۔ ـ

ڈیتھ سکواڈز کی بھرمار

ڈیتھ اسکواڈز ان لوگوں پر مشتمل مسلح جھتے ہیں جنہوں نے بظاہر پاکستانی فوج کی وردی نہیں پہنی بلکہ وہ مقامی ہیں لیکن یہ فوج کا ہی کام کرتے ہیں اور انہی سے طاقت لیتے ہیں۔

ڈیتھ اسکواڈ کی ابتدا ڈیر بگٹی سے ہوئی جہاں خان محمد کلپر کو چند کلپر اور مسوری افراد قبائل کے افراد کا سہارا دے کر انہیں نواب اکبر خان بگٹی کے خلاف استعمال کیا گیا ـ آہستہ آہستہ یہ حربہ بلوچستان کے دیگر خطوں میں بھی آزمایا گیا ـ جیسے مری علاقے میں ہزار خان بجارانی، ساروان میں تحریک نفاذ امن، جھالان میں جھالان عوامی پینل، مکران اور آواران میں لشکر خراسان، کراچی میں پیپلز امن کمیٹی اور اسی طرح دوسرے علاقوں میں مختلف ناموں سے ڈیتھ اسکواڈ سامنے آنے لگے ـ ان کا کام سیاسی کارکنوں کو لاپتہ کرنا اور قتل کرنا تھا ـ ان سکواڈز نے دہشت کا بازار گرم کرکے عوام میں خوف پھیلایا اور بلوچ جدوجہد کے سامنے دیوار بن کر کھڑے ہو گئے۔

سیاسی کنفیوژن پیدا کرنا

بلوچ کیا چاہتے ہیں؟ جدوجہد کے مطالبے اور مقاصد کیا ہیں؟
اس کا جواب سیدھا ہونا چاہیے لیکن جان بوجھ کر کنفیوژن پیدا کرنے کی مسلسل مشق کی گئی۔

کنفیوژن پیدا کرنے والوں میں سب سے اہم کردار نیشنل پارٹی نے ادا کیا ـ نیشنل پارٹی خود کو بابائے بلوچستان میر غوث بخش بزنجو کا وارث قرار دیتی ہے ـ پارٹی رہنماؤں نے پہلے پارٹی کے نام سے بلوچ اور بلوچستان حذف کیے پھر بڑی چالاکی سے پاکستان کا نام بھی دانستہ غائب رکھا ـ اس سے پارٹی کیمو فلاج ہوگئی اور اس کا تعین کرنا دشوار ہوگیا کہ پارٹی درحقیقت کس کی نمائندگی کررہی ہے ـ پھر نیشنل پارٹی نے اپنے سیاسی مقاصد کو پاکستان میں جمہوریت، صوبائی خود مختاری، کنکریٹ لسٹ، اینٹی سردار نظریہ ، این ایف سی ایوارڈ اور دیگر غیر واضح نظریات و مطالبات کا مکس اچار بنا کر پیش کیا جس نے نہ صرف بلوچ عوام کو کنفیوژ کر دیا بلکہ بلوچستان سے باہر بھی بلوچ جدوجہد کے مقصد کو نقصان پہنچا۔

نیشنل پارٹی بلوچ جدوجہد کے سامنے ایک ایسی دیوار بن گئی جسے اگر گرایا جائے تو سر پھٹ جائے اور اگر چھوڑا جائے تو راستہ بند ملے۔ ـ

این جی اوز

بلوچستان کے لوگوں کو قومی سیاست سے دور کرنے اور ان کو بنیادی مسئلے سے غافل کرنے کیلئے بھانت بھانت کے این جی اوز نے بلوچستان کا رخ کیا ـ ویسے تو بلوچستان میں عرصہ دراز سے این جی اوز کام کر رہے ہیں. بابائے بلوچی واجہ خیر محمد ندوی کی بلوچ ایجوکیشنل سوسائٹی جو بعد میں بلوچی ادب اور بی ایس او کی ماں ثابت ہوئی ، ایک این جی او ہی تھی ـ لیکن ایسے این جی اوز قومی سیاست سے منسلک رہے ہیں۔

پاکستانی این جی اوز ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بلوچستان میں لائے گئے ـ بلوچستان میں بیروزگاری ایک مہلک عفریت ہے ـ بے روزگار نوجوانوں نے اس عفریت کا مقابلہ کرنے کے لیے این جی اوز کا رخ کیا مگر ایک اور مصیبت ان کے گلے پڑ گئی ـ این جی اوز نے بلوچوں کی غربت اور روزگار کے محدود مواقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا ـ تعلیم و تربیت، راشن، کاروکاری، عورت کی آزادی، معذور بچوں کی پرورش، زچہ بچہ….. پاکستانی فوج کی سرپرستی میں ان این جی اوز کا مقصد یہی ہے کہ سماجی مسائل کو نوآبادیاتی نظام سے جدا کرکے ان مسائل کو مفرد بنا کر لوگوں کو اس میں الجھا دیں ـ کالونیل حکمرانی، کالونیل کلچر اور سیاسی جدوجہد کو پسِ پشت ڈال کر اور نوآبادیاتی نظام کو غیر اہم بنا کر سماج کو غیر سیاسی بنانا ان این جی اوز کا بنیادی ہدف ہے۔

جیسے ابھی گوادر کے گرد باڑ لگنا ایک سنگین مسئلہ ہے ـ یقیناً یہ مسئلہ اسی کالونیل سسٹم اور کالونیل زندگی سے جڑا ہوا ہے ـ لوگوں میں اس پر غم و غصہ پایا جاتا ہے ، ناراضی ہے جبکہ دوسری طرف لاہور سے تعلق رکھنے والی ایک این جی او “آر ڈبلیو فاؤنڈیشن” پیشکان گوادر میں پاکستانی فورسز کی مدد سے ایک روزہ فری میڈیکل کیمپ لگا رہی ہے ـ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کہ نام نہاد ترقی کے دعویدار گوادر میں ایک بڑا ہسپتال تعمیر کرتے لیکن چوں کہ ان کا مقصد بلوچوں کی فلاح و بہبود نہیں بلکہ وسائل لوٹنا ہے ـ تو یہ ایک دن کیمپ لگانے کے نام پر لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں ـ بلوچوں کو انکے اصل مقصد اور مسئلے سے غافل کرنے کیلئے انہیں ڈائیورٹ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔