کابل کی ماؤں کا درد دیکھو – محمد خان داؤد

191

کابل کی ماؤں کا درد دیکھو

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

”میں نے توبس گلاب لگائے تھے
تتلیاں خود ہی آئی ہیں!“
کابل یونیورسٹی ہو بہو اس شعر کی ماند رہی ہے جہاں پیغمبروں جیسے استادوں نے تو بس کتابوں کے پھول ہی اُگائے تھے اور شاگردوں کی شکلوں میں تتلیاں تو خود ہی آئیں تھیں،
کوئی ہزارہ!
کوئی پختون!
کوئی کُرد!
کوئی ایرانی!
کوئی اُزبک
کوئی کیا تو کوئی کیا!
پھر وہ کہاں سے آئے، جن کے ہاتھوں میں آتش گیر مادہ تھا، جو بس سب کچھ راکھ کرنے آئے تھے
گلاب بھی!
گلابوں پہ بیٹھی تتلیاں بھی!
آنکھیں بھی
آنکھوں میں بیٹھی تتلیوں جیسے خواب اور سپنے بھی
حسین چہرے بھی اور ان چہروں کی مسکراہٹ بھی
اُمیدیں بھی اور ماؤں کے ارمان بھی
کیا کابل یونیورسٹی میں بس کتابیں جلی ہیں، کیا کابل یونیورسٹی میں بس وہ اسٹال جلے ہیں جن اسٹالوں پہ کتابیں دھری تھیں، کیا کابل یونیورسٹی میں بس دیواریں جلی ہیں۔ کیا کابل یونیورسٹی میں بس وہ لوگ جلے ہیں جو کابل یونیورسٹی کے اندر ایرانی کتابوں کا میلا لگانا چاہتے تھے۔ کیا کابل یونیورسٹی میں بس وہ طالبات جلی ہیں، جو اپنی صبح جیسی حسین مسکراہٹ کے ساتھ داخل ہوئیں اور پھر انہیں اس لسٹ میں شامل کیا گیا جس لسٹ میں کوئی ایسا نام نہیں ہوتا کہ یہ جلیلہ ہے یا ہانیہ؟ جہاں بس یا تو تابوتوں پہ لکھے نمبروں سے شناخت ہوتی ہے یا ان کا ڈی این اے کیا جاتا ہے، کیا کابل یونیورسٹی میں بس وہ وجہہ نوجوان جلے ہیں، جن کے لبوں پر حسین مسکراہٹ ہوا کرتی تھی جو اپنے دعائیہ کلمات ادا کر کے سوشل میڈیا پر پوسٹ کردیتے تھے جو دعائیہ کلمات کئی دنوں تک سوشل میڈیا پر نئے تاروں کی طرح جگ مگ کرتے رہتے تھے
کیاکابل یونیو رسٹی میں بس ان خوبصورت نوجوانوں کے دعائیہ کلمات جلے ہیں؟
کابل یونیورسٹی میں تو اب سب کچھ جل گیا ہے
سب کچھ
جس کے لیے کئی صدیاں پہلے غالب نے اشارہ کیا تھا کہ
”جلا ہے جسم تو دل بھی جل گیا ہوگا
کُریدتے کیا ہو،جستجو کیا ہے؟“

کابل یونیورسٹی میں تو بس کچھ جل گیا ہے، کتابیں، کتابوں میں لکھی باتیں، حسین وجیہہ چہرے ان چہروں کی حسین مسکراہٹ، جوانی، نوجوانی کی نوخیزی! دعا، دعائیہ کلمات، دعاؤں کے لیے اُٹھتے ہاتھ، گلابی ہونٹ، ان گلابی ہونٹوں سے ادا ہو تے گیت، کتابوں سے بھرے بیگ، محبت سے بھری بانہیں، انتظار،منتظر آنکھیں، پاؤں، پاؤں کا محبت میں سکڑنا، ہلکی پھلکی چہل قدمی، وہ ہاتھ جو بانہوں تک جا تے تھے، وہ بانہیں جو محبت سے بھرے ہاتھوں کا بار برداشت کرتی تھیں،
جہاں کتابوں کو گولی مار دی جا ئے!
جہاں کتابوں کو جلا دیا جائے
جہاں کتابوں کو برداشت نہ کیا جائے
جہاں کتابوں کو ٹٹولتے ہاتھوں کو برداشت نہ کیا جائے
جہاں انسانوں سے دشمنی کم
اور کتابوں سے دشمنی زیا دہ ہو
اور انسان بھی اس لیے گولی کھا کر گریں کہ انہیں کتابوں سے محبت تھی
جہاں پہلی گولی کتاب کو ما ری جائے
جہاں ماچیس کی پہلی تیلی کتابوں کو دکھائی جائے
جہاں کتابوں کو جلتا دیکھ کر رقص کیا جائے
جہاں جلتے کتابوں کے شعلوں کو جدید موبائل میں ریکارڈ کیا جائے
جہاں وہ علم دشمن، گلاب دشمن، دعا دشمن، تتلی دشمن، رنگوں کے دشمن اپنی پریس ریلیز اور وڈیو بیان میں اس بات کا اظہار نہ کریں کہ ان کی بھونکتی بندوق نے کتنے انسانوں کو موت کے گھاٹ اُتارا پر وہ بہت ہی فخر سے کہیں کہ ان کی بھونکتی بندوق کے شعلوں نے کابل یونیورسٹی میں کتنی کتابوں کو نظرِ آتش کیا تو اس سے بڑی اور معاشرے کی تباہی کیا ہو سکتی ہے
انسان اور کتابیں کوئی گلاب کی شاخ نہیں کہ
کاٹ دینے پر پھر نکل آئیں
پر یہاں کابل یونیورسٹی میں تو کاٹا بھی نہیں گیا جلایا گیا ہے
اور ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ
کتابیں اور انسان
گیت،دعا،رنگ،اور گلاب نہیں کہ کاٹنے پر پھر اُگ آئیں
یہ ایک بار کٹ جائیں یا جلائے جائیں پھر انہیں لانے میں کئی اور رتجگے درکار ہوتے ہیں
جب جاکہ کوئی حسین چہرہ بنتا ہے پھر جا کہ اس حسین چہرے پر آنکھیں سجتی ہیں، پھر جا کہ ان آنکھوں میں سپنے اور خواب بستے ہیں، پھر جا کہ اس حسین چہرے پہ مسکراہٹ سجتی ہے پھر جاکہ اس کے ہاتھوں میں جنبش ہوتی ہے پھر جا کہ وہ کہیں اپنی دل میں گلاب اُگاتا ہے پھر جا کہ اس گلاب پہ تتلی بیٹھتی ہے!
”میں نے توبس گلاب لگائے تھے
تتلیاں خود ہی آئی ہیں!“
اس عمل میں تو ایک وقت درکار ہو تا ہے
اتنا وقت جتنے وقت میں ایک اور نئی ”کن فیکون“ ہو
ایک اور نیا آدم بنے
ایک اور حوا بنے
اور پھر دونوں کو جنت بدر کیا جائے
اتنا وقت
پر یہاں تو ابلیس ہر اس آدم کو دنیا بدر کر رہا ہے
جس آدم کو رنگوں،گیتوں،دعاؤں،تتلیوں اور کتابوں سے محبت ہے
کابل یونیورسٹی میں بھی ابلیس نے یہی کیا ہے
کابل یونیورسٹی میں ابلیس نے نہ حوا کو بخشا اور نہ آدم کو
حتیٰ کہ اس نے تو صحیفے جیسی کتابوں کو بھی نہ بخشا اور سب کچھ جلا کر راکھ کر دیا
کابل کی ماؤں نے اپنے آنگوں میں گلاب لگائے تھے ان گلابوں پر محبت بھری تتلیاں منڈلا رہی تھیں
ان ماؤں نے تو محبت کے بیج بوئے تھے
ان ماؤں نے تو کتابوں جیسے بچے علمی درس گاہ بھیجے تھے
وہ تو نہیں جانتی تھیں کہ آج ایک اور نیا ”کن فیکون“ ہوگا
اور جو باقی ہے وہ بھی نہیں رہے گا
ایسے مائیں کہاں جائیں جن کے دل کا کابل جل کر راکھ ہوا ہے؟
اوردو دھوئیں اُٹھ رہے ہیں
ایک کابل کے من سے ایک کابل کی ماؤں کے دل سے
ایسی مائیں کہاں جائیں؟
وہ بس مائیں ہیں
سیدھی
معصوم
اور ان پڑھ
کوئی ہزارہ!
کوئی پختون!
کوئی کُرد!
کوئی ایرانی!
کوئی اُزبک!
کوئی کیا تو کوئی کیا!!
کابل کی درد بھری مائیں رو رو کر اپنے آپ کو کہہ رہی ہیں کہ
”ہم نے تو بس گلاب اُگائے تھے
ہم نے تو بس گلاب اُگائے تھے
ہم نے۔۔۔۔۔۔۔“


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔