بولان کی یاترا – فرید بلوچ

508

بولان کی یاترا

تحریر: فرید بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

دسمبر کا مہینہ تھا، نئے سال کی آمد تھی، 2019 شروع ہونے والا تھا، ہم ایسے سفر پہ نکلے جہاں بہادروں کی داستانیں ہمارا انتظار کر رہی تھیں۔ گاڑی میں بیٹھنے کے بعد بیس گھنٹوں کا سفر کرکے ہم جب ایک قصبے میں پہنچے وہاں ہمارا انتظار کیا جارہا تھا، دوستوں سے مل کر کھانا کھا کر وہاں سے نکلنے کا وقت ہوا رات کو آٹھ بجے کے قریب ہم اپنے سفر کی جانب گامزن ہوئے انتہائی اندھیرے میں ہمیں ایک پہاڑی کو عبور کرنا تھا، جہاں ایف سی کا ناکہ تھا، اندھیرے میں چلنا بہت دشوار تھا لیکن دل میں ایک خوشی تھی آج میرا ایک خواب پورا ہونے والا تھا، وطن کے بہادر سپوتوں کے ہم گام ہونے کا وقت تھا، جن کی داستانیں میں شہید دلجان سے سنتا آیا تھا۔

رات کا سفر کافی کٹھن تھا، اونچی پہاڑی پر چڑھنا اور محتاط ہو کر اترنا تاکہ ہماری آواز ایف سی والے نا سنیں اور کوئی ناخوشگوار واقعہ نا ہو کیونکہ ہم شہر سے آرہے تھے اور کوئی اسلحہ بھی ہمارے پاس نہیں تھا مشکل اور کٹھن راستے سے اتر کر رات کے تین بجے ہم ایک محفوظ جگہ پر پہنچ گئے جہاں ہمارے لیے چائے بنایا گیا، چائے بنانے والا کون؟ استاد کا لاڈلا، جس کی بنائی چائے پی کر ساری تھکن اتر گیا اور پھر ہم اپنے سفر کی جانب روانا ہوگئے تاکہ ہم مزید محفوظ مقام تک پہنچ جائیں صبح کی نماز تک ہم سفر کرتے رہے.

محفوظ مقام پر پہنچ کر تھوڑا آرام کرنے کے بعد پھر سے اپنے سفر کی جانب بڑھنے لگے، بولان کے مقدس مقامات سے ہوکر ہم اپنے منزل کی جانب بڑھ رہے تھے، اس مقام پر پہنچے جہاں استاد اسلم کا مقدس خون بہا تھا، امتیاز جان جہاں پر شہید ہوگئے ان مقامات کا دیدار کرکے ہم آگے بڑھ رہے تھے، جہاں ہمیں وطن کے سپوتوں سے ملنا جن کے پاس ہزاروں داستانیں تھیں بہادروں کی.

چوبیس گھنٹے پیدل سفر کرنے کے بعد ہم اپنی منزل سے تھوڑی دور پہنچے تھے، جہاں پر کچھ دوست ہمارے سامنے آئے اور ہماری” بڑھائی” کرنے لگے، ہمارے لیے کھانا بنایا گیا کرنو بنایا گیا، جو میں زندگی میں پہلی بار کھانے والا تھا، کھانا کھانے کے بعد ہمارے لیے جگہ کا انتظام کیا گیا، جہاں ہمیں آرام کرنا تھا، جوبیس گھنٹے مسلسل پیدل چلنے کی وجہ سے میرے پاؤں سوج گئے تھے ایک مہربان دوست نے میرے پاؤں کی سوجن کا علاج تیل اور نمک سے کیا جس سے مجھے آرام ملا.

اگلی صبح ہمیں وتاخ لے جایا گیا جہاں سینیئر ساتھیوں سے ہم ملے ان سے ہمارا تعارف ہوا ہر ایک ساتھی ایک داستان تھا، بہادری کا جن کی باتیں سننا سمجھنا اب ہمارا فرض بن گیا تھا۔

سرد راتیں تھیں، آگ کے اردگرد بیٹھ کر بولان کی داستانیں سننے کا اپنا مزا تھا
بس یہی خواہش ہوتا تھا

” نمتو اواری نا دا شام مرے مرغن”

پھر کیا تھا گشتیں تھیں، ہم تھے بولان کے پہاڑ تھے، جہاں استاد تھے جو ہمیں سوہو کر رہے تھے، کس طرح دشمن کو پچھاڑ نا ہے.

اب ہم باقاعدہ بولان کے کاروان میں شامل ہوگئے جہاں ہماری ٹریننگ شروع ہوگئی ایک سنگت کی نگرانی میں. جو ہمیں ہر حوالے سے ٹرین کر رہا تھا سیاسی ہو یا جنگی.

ایک سینیئر سنگت کی نگرانی میں ہم گشت پر نکلے ایک مشکل سفر طے کرنا تھا جس میں بھوک پیاس برداشت کرنا تھا تا کہ ہم مضبوط ہوسکیں کہ کس طرح فوجی آپریشنوں کے دنوں میں سنگت اپنا گزارا کرتے ہیں۔

گشت پر نکلے مسلسل دو دن سفر کرنے کے بعد ہم اپنے منزل پر پہنچے جہاں ہمیں کچھ ضروری کام کرکے ساتھیوں تک واپس پہنچنا تھا، وہ کام مکمل کرنے میں ہمیں مزید ایک اور دن لگا اس طرح کام مکمل ہونے کے ہمیں واپسی کرنا تھا دو دن کے سفر کے بعد ہم واپس اپنی جگہ پر پہنچ گئے.

اب موسم بھی اپنے رنگ دکھانے لگا، بارشیں شروع ہوگئیں، ساتو کی بارشیں جو رکنے کا نام نہیں لیتی تھی اب جگہ بدلنے لگے تا کہ بارش سے اپنے آپ کو بچاسکے اس طرح محفوظ جگہ پر پہنچ گئے۔

رات کو آگ کے ارد گرد بیٹھ کر سارے سنگت جنگ کی تیاری کرنے لگتے حکمت عملی بناتے کس طرح دشمن کے پوسٹوں پر حملہ کرکے انہیں قبضہ کرنا ہے، کس طرح چیئرمین فتح کی بہادری دہرانی ہے، کس طرح فرنٹ لائن پر لڑنا ہے.

دوستوں کے ساتھ دن ایسے گزر رہے تھے کہ وقت کا پتہ ہی نا چلا دو مہینے ہوگئے اب کچھ شہری مجبوریاں آگئیں، واپسی کرنے کا وقت آگیا لیکن دل مان ہی نہیں رہا تھا کہ سنگری سنگتوں کو چھوڑ کر واپس آجاؤں دل پر پتھر رکھ دوستوں سے رخصت ہونا پڑا لیکن دل ودماغ کئی دنوں تک بولان میں گھومتے رہے.

اس طرح ایک مقدس یاترا مکمل ہوا. پاکیزگی کیا ہوتی ہے بولان سے سیکھا جائے.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔