ریاست تشدد کے پالیسی پر کاربند ہے – ماما قدیر بلوچ

159

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا لاپتہ افراد کیلئے احتجاج جاری، کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاج کو 4139 دن مکمل ہوگئے۔ بلوچستان کے مختلف علاقوں سے لاپتہ افراد کے لواحقین نے کیمپ آکر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔

لاپتہ سیف اللہ رودینی کے لواحقین نے ان کے جبری گمشدگی کو سات سال مکمل ہونے پر پریس کانفرنس کی جبکہ کوئٹہ سے لاپتہ عبدالراشد بلوچ کے بھائی نے بھی اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے رہنماء ماما قدیر بلوچ کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں فوجی آپریشن کا سلسلہ جاری ہے، گذشتہ روز سے فورسز نے مند کے علاقوں میں بربریت کا آغاز کردیا ہے۔ حکومت میں بیٹھے سارے مردہ ضمیروں نے فوجی آپریشن کی اجازت دے دی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مذکورہ افراد درپردہ فوجی آپریشنوں کی اجازت دیتے ہیں اور عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے اس کی مذمت کرتے ہیں۔

ماما قدیر کا کہنا تھا کہ ان حالات میں بلوچوں کو چاہیے کہ بین الاقوامی سطح پر بلوچستان میں فورسز کی جانب سے انسانی حقوق کے پامالیوں کی حقیقت کو دنیا کے سامنے لائیں۔ آپریشن میں متاثرہ افراد، جلائے گئے گھروں اور لاشوں کی تصاویر اور ویڈیو سوشل میڈیا پر شائع کرنے سمیت عالمی میڈیا پر چلایا جائے۔

انہوں نے کہا کہ ریاست تشدد کے پالیسیوں پر کاربند ہے، اب تک درجنوں افراد آپریشنوں میں زخمی اور شہید ہوئے ہیں جبکہ کئی افراد نقل مکانی پر مجبور ہوچکے ہیں۔

دریں اثناء کیمپ میں موجود لاپتہ عبدالراشد بلوچ کے بھائی عطاالرحمٰن بلوچ نے کہا کہ ان کے بھائی کو آٹھ سال قبل اس وقت لاپتہ کیا گیا جب وہ مجھ سے ملنے آئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ عبدالراشد بلوچ کو کوئٹہ کے جناح ٹاون ملک اسٹریٹ سے چھاپے کے دوران فرنٹیئر کور اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے حراست میں لیکر لاپتہ کیا۔ ان کے ہمراہ دیگر افراد کو بھی حراست میں لیا گیا جو بعدازاں بازیاب ہوگئے لیکن عبدالراشد تاحال لاپتہ ہے۔

عطاالرحمٰن نے انسانی حقوق کے اداروں سے اپیل کی کہ ان کے بھائی کے بازیابی کیلئے کردار ادا کریں۔