کراچی: حنیف چمروک قتل کے خلاف مظاہرہ

167

 بلوچ یکجتی کمیٹی کراچی کے زیر اہتمام بلوچ شاعر اور گلوکار حنیف چمروک کے قتل کے خلاف کراچی پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔

احتجاجی مظاہرے میں سماجی کارکنوں، طالب علموں اور دیگر شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔

احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ حنیف چمروک نہ صرف بلوچ شاعر اور گلوکار بھی تھے لیکن سماجی اور انسانی حقوق کی ایکٹوسٹ طیبہ بلوچ کے والد بھی تھے، طیبہ بلوچ ، بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن کی سابقہ وائس چئیر پرسن بھی رہ چکی ہیں اور ابھی بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف ڈٹ کر کھڑی ہیں لیکن بد قسمتی سے طیبہ بلوچ کے والد کے بے ہمانہ قتل کے خلاف نہ صرف زمہ دار اداروں کی خاموشی حیران کن ہے بلکہ بلوچستان میں یہ قتل کا تسلسل جنہیں لوگ حادثات کہہ کر زمہ داری سے بری ہونا چاہ رہے ہیں ، انتہائی تشویشناک ہے۔

مقررین نے مزید کہا کہ حنیف چمروک کا قتل نہ صرف ایک انسان کا قتل ہے بلکہ ایک شاعر اور گلوکار کا قتل ہے، بلوچ معاشرے میں بلوچ عورت ایکٹوسٹس کے لئے خوف کا ماحول ہے کہ جیسے شاہینہ کا قتل ابھی تک ایک معمہ ہے، حیات کا خون ابھی تک اُسی سڑک کے کنارے بلک رہا ہے، برمش اب بھی اپنی ماں کے قاتلوں کی سزا کی منتظر ہے، کلثوم کا خون اب بھی انصاف کے سرہانے بیٹھا ہے، وہیں اب طیبہ بھی کھڑی ہے، اپنے بابا کے قتل کے خلاف چیختے ہوئے انصاف کی منتظر۔

 مقررین نے کہا قتل نے بلوچ معاشرے میں ایک خوف کو جنم دیا ہے۔اسی خوف نے بلوچ معاشرے میں بسنے والے لوگوں کی زندگیوں کو الجھنوں میں ڈال دیا ہے،اسی خوف کے ماحول نے تقسیم در تقسیم کی کیفیت اختیار کرلی ہے اور اسی خوف کو ایک منظم انداز میں تقویت فراہم کیا جارہا ہے۔

مقررین نے آخر میں کہا کہ ماورائے عدالت گرفتاری سے لیکر ماورائے عدالت قتل عام نے بلوچستان کے ہر طبقے کو متاثر کرکے رکھ دیا ہے، پاکستان کے اعلی ادارے حنیف چمروک کے قتل میں ملوث اہلکاروں کو نہ صرف سزا دیں بلکہ مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے اقدامات کریں۔