‎آخر کون اور کیوں ہے وہ؟ – عبدالہادی بلوچ

396

‎آخر کون اور کیوں ہے وہ؟

تحریر: عبدالہادی بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

‎آخر کون ہے وہ؟ جو تخت پر بیٹھ کر نہ ملک و ریاست کی آئین مانتا ہے، نہ قانون، نہ اخلاقی صورت، نہ انسانیت، نہ انسانی حقوق، نہ انسانی حقوق کے علم برداروں کو، نہ پارلیمانی انتظام اور خاکے کو، نہ صوبائی سمیت ملکی سپریم عدلیہ کو، نہ اپنے ہی پالے ہوئے ان افراد کو جو کتے کی طرح اس سے وفادار نظر آتے ہیں، اور نہ اپنے ہی شعبے میں کم درجے کے افسران کو۔

‎ آخر کون ہے وہ؟ جو جب کسی کو سر عام قتل کرتا ہے تو پوچھنے والا اسے پوچھنے سے قاصر اور سزا دینے والا سزا دینے سے قاصر ہے۔ جو کسی کو ماورائے عدالت اٹھا کر اپنے تشدد و ٹارچر خانوں میں لے جاتا ہے اور اس لاپتہ فرد کے لواحقین ملک کے آئین یا عدلیہ سے رجوع کرنے یا انصاف کےلیے امید رکھنے کے بجائے وہ پہلے اپنے قبائلی کسی میر و معتبر، علاقائی سردار و سربراہ، یا ان اٹھانے والے کے پالے ہوئے لوگوں ( ڈیتھ اسکواڈ والوں) سے رجوع کر کے ان سے اس لاپتہ فرد کو چھڑانے میں مدد کی زیادہ توقعات رکھتے نظر آتے ہیں۔ کیوں وہ ملکی آئین کو صرف نام نہاد اور غیر موثر آئین و قانون سمجھ کر اسے درگزر کرکے کسی عام افسر یا غیر فوجی مسلح شخص سے زیادہ توقع رکھتے ہیں؟ آخر ایسا کیوں؟ کس کی وجہ سے؟

‎آخری کون ہے وہ؟ جو کسی کو غیر آئینی اور غیر انسانی طور پر اغوا کرکے بھی اس اغوا کے وابستگی سے انکاری ہوتا ہے اور یہ واضح ہوتے ہوئے بھی کوئی کچھ نہیں کر پاتا۔ جس کو پارلیمانی وزراء چاہے وہ صوبائی ہو یا قومی، میں سے بھی اگر کوئی ایسی وابستگی کے متعلق کچھ پوچھنے یا انصاف دلانے کی بات کرے تو نہ صرف اس کی بات کو نظرانداز کی جاتی ہے بلکہ کچھ نہ کچھ طریقہ و ذریعہ سے اس کی بولی بند کر دی جاتی ہے۔ آخر یہاں بڑے سے بڑے درجے کا شخص و سرکاری افسر ان کے خلاف کچھ کرنے سے قاصر کیوں ہے؟ آخر کون ہے وہ؟

‎یہاں تک کہ کبھی کبھار ان ‘آخر کون ہے وہ’ والوں کے شعبے میں سے کسی افسر سے بھی اگر کوئی لاپتہ فرد کے لواحقین رجوع کریں تو وہ افسر بھی کہتا ہے کہ میری بات نہیں مانی جا رہی، یعنی اوپر نہیں پہنچ رہی۔ آخر وہ اوپر والا کون ہے اور کیوں ہے جن تک کسی کی کوئی (کہنے کو) جمہوری ملک میں بات اور انصاف کےلئے آواز نہیں پہنچ پا رہی؟

‎ان کے علاوہ، ان وحشی و غیر انسانی اور غیر آئینی طور پر اغوا و لاپتہ کرنے والوں کو ملکی اور عوامی محافظ کہنے والے، کچھ وہ لوگ جن کو ان سے چند سہولیات میسر ہیں، اور چند کٹھ پتلی میر معتبر، سردار و نواب اور ان کے حمایتی اور ساتھی ان نام نہاد محافظ بلکہ سامراج و نوآباد فوج کی وحشیانہ و غیر انسانی طرز سے قطع نظر ہوکر پھر بھی ان کو اپنا دفاعی عنصر, محافظ اور ہمدرد سمجھ کر جمہوریت کے دعویدار ہوتے ہیں جبکہ ایسے لوگ خود ان تک رسائی حاصل کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ ایسی کیفیت و حقیقت سے آشنا ہوکر بھی خود کو ان کا غلام اور ہمدرد سمجھنا کم ضرف اور ضمیر فروشی کا ثبوت ہے۔

‎ لیکن بات یہ نہیں کہ کون کیا اور کیسا ہے، بلکہ آخر وہ کون ہے جن تک ان وزراء، افسران، میر معتبر اور سردار و نواب وغیرہ کی ان تک بات نہیں پہنچتی۔ لہذا, اِن کو اس نام نہاد محافظ اور سامراج و نوآباد فوج کے سامنے اپنی حیثیت اور اس کی اصلیت کا تعین کر کے اکی کی جانب سے مرتب غیر منصفانہ اور غیر انسانی تسلسل اور رجحانات کے اختتام کےلیے کوئی حل نکال لیں۔ جب اس کیفیت کا معلوم پڑ جاتا ہے کہ آخر وہ کون اور کیوں ہے تو اپنی حیثیت کا بھی ادراک ہو جاتا ہے اور حق کی راہ خود بہ خود ہموار ہوتی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔